مولانا گلزار احمد مظاہریؒ اور علماء کرام

ڈاکٹر حسین پراچہ نے اپنے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کی یادداشتوں کا حصہ اول قلم بند کیا جو پاکستانی ابلاغ میں ایک طوفان مچ گیا۔ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اپنے والد گرامی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کی بہت سی نمایاں خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ سفروحضر میں ڈائری لکھنے کا اہتمام فرماتے۔ کبھی تفصیل سے اور کبھی اختصار کے ساتھ۔ 1964ء میں انہیں ڈسٹرکٹ جیل لائل پور (فیصل آباد) میں اپنے دیگر 3 ساتھیوں کے ہمراہ تقریباً 9 ماہ تک قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ اس زمانے کی کئی ڈائریوں میں سے چند ہی محفوظ رہ سکی ہیں۔ ڈائری کے ان صفحات کو مرتب کر کے بھائی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے  ہفت روزہ ایشیا میں ہفتہ وار چھپوایا تو احباب نے اس سلسلے کو بہت پسند کیا۔ بہت سے قارئین نے ڈائری کے صفحات کو والد گرامی کے حالاتِ زندگی کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کرنے کی تجویز دی۔ مجھے یہ تجویز بہت پسند آئی۔ بھائی فرید احمد اور سعید احمد کے مشورے سے خاکسار نے یہ کارِ خیراپنے ذمے لے لیا۔ والد صاحب کی پیدائش 1922ء کی تھی اس اعتبار سے آج تقریباً ایک صدی کے بعد ابا جان کے علاوہ ان کے اکثر احباب بھی خلد مکانی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا تحقیق کی زبان میں ثانوی یا بالواسطہ ذرائع پر ہی انحصار کرنا پڑا۔کتاب میں قید و بند کا باب مرتب کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ اس سلسلے میں اسی زمانۂ قید میں والد صاحب کے ساتھ نظربند بعض شخصیات کی کتب اسیری کا پس منظر سمجھنے میں بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان شخصیات میں سے ایک پروفیسر خورشید احمد صاحب ہیں جو اُس وقت جماعت اسلامی کے نوجوان رکن شوریٰ تھے۔ انہوں نے اسی زمانہ قید کی روداد ’’تذکرئہ زنداں‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ اسی کتاب میں پروفیسر صاحب کا وہ تاریخی بیان بھی شامل ہے جو انہوں نے لاہور میں نام نہاد ایوب خانی’’عدالتِ انصاف ‘‘ کے روبرو دیا تھا۔ دوسری کتاب والد صاحب کے ساتھ لائل پور جیل میں نظربند ان کے تحریکی ساتھی اور تقریباً ہم عمر سید اسعد گیلانی صاحب کی تحریر کردہ ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل ہے ’’قافلۂ سخت جاں‘‘۔ کتاب میں جیل کا اندرونی منظرنامہ بھی ہے اور ان سب زندانی ساتھیوں کا احوال بھی ہے جو 1964 میں مغربی پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید تھے۔میں نے سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور اسلامک سنٹر لیسٹر انگلستان کے ڈائریکٹر پروفیسر خورشید احمد صاحب سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنی کتاب ’’تذکرئہ زنداں‘‘ میں سے ایک دو اقتباسات زیر نظر کتاب میں شامل کرنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ پروفیسر صاحب نے نہایت فراخدلی کے ساتھ اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ بعدازاں ہم نے پروفیسر صاحب سے مولانا مظاہری کی کتاب کا پیش لفظ لکھنے کی فرمائش کی۔ اپنی پیرانہ سالی اور خرابی صحت کے باوجود پروفیسر صاحب نے اس فرمائش کو بھی شرفِ قبولیت بخشا۔ سید اسعد گیلانی مرحوم کی پوتی اور میرے عزیز دوست فاروق حسن گیلانی مرحوم کی صاحبزادی مریم گیلانی،کہ جوریلوے میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں، بیٹیوں کی طرح میرا ادب و احترام کرتی ہیں۔ میں نے مریم گیلانی سے بھی اسی طرح کی اجازت طلب کی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’انکل! آپ مجھ سے اجازت طلب کریں گے؟‘‘ میں نے کہا کہ ضابطے کی کارروائی تو پوری کرنی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ایمریطس اور عربی زبان و ادب کے عالمی شہرت یافتہ محقق ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے ایّامِ جوانی میں بہاولپور کے بعد 1963ء سے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں تدریسی فرائض انجام دینا شروع کیے اور یہ سلسلہ لگ بھگ 22 برس تک جاری رہا۔ مجھے فرسٹ ائیر سے ہی کالج میں خورشید رضوی صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ یہ نیازمندی آج نصف صدی کے بعد بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ ارادت مندی میں بدل چکی ہے۔ سرگودھا سکونت کے دوران خورشید رضوی صاحب کی والد گرامی سے بھی گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ میں نے ان سے بھی اس کتاب ’’مولانا گلزار احمد مظاہری : زندگانی… جیل کہانی‘‘ پر اپنے ثاثرات دیباچہ کی صورت میں قلم بند کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے اس التماس کو قبول فرمایا اور ’’کچھ یادیں، کچھ باتیں‘‘ تحریر فرما دیں۔ مجیب الرحمن شامی نے زیر نظر کتاب کے حوالے سے ’گلزار کہانی‘ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ قلم بند کی ہے۔ یہ کتاب قلم فائونڈیشن بنک سٹاپ والٹن روڈ سے حاصل کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن