ملتان (فرحان ملغانی سے) بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان بدانتظامی کے باعث شدید مالی خسارے کا شکار‘ انتظامی و تدریسی شعبہ جات کے سربراہان کا اضافی اخراجات میں کمی کیلئے تعاون سے انکار‘ انتظامی افسران کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی پارٹ ٹائم ٹیچنگ الاؤنس کی مد میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے‘ شاہ خرچیوں اور بدانتظامی کے باعث ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ بھی سراٹھانے لگا۔ تفصیل کے مطابق جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی درسگاہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان گڈ گورننس کے فقدان اور انتظامیہ کی ناقص پالیسیوں کے باعث شدید مالی بحران سے دوچار ہو چکی ہے اور یونیورسٹی مالی خسارے میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس وقت زکریا یونیورسٹی کا خسارہ ایک ارب 20 کروڑ روپے سے تجاوز کر چکا ہے تدریسی شعبوں کے سربراہان اور انتظامی افسران نے نئی بھرتیوں میں کمی‘ سلیکشن بورڈز کے ذریعے تقرریوں و ترقیوں تمام آفیسرز اور عملے کے آف ڈے اوور ٹائم بند کرتے‘ وزٹیننگ فیکلٹی میں کمی پارٹ ٹائم ٹیچنگ الاؤنس‘ ٹرانسپورٹ‘ پرچیز اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کی تجاویز کو ہوا میں اڑاتے ہوئے شاہ خرچیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اسی طرح کرونا وباء کی وجہ سے بھی یونیورسٹی آمدن میں واضح کمی آئی ہے‘ یونیورسٹی میں کرونا کے باعث طویل تعطیلات میں ہاسٹلز اور تدریسی شعبہ جات بند ہونے کے باوجود ان کے اخراجات میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی‘ ذرائع کے مطابق زکریا یونیورسٹی میں شیڈول کے مطابق امتحانات نہ ہونے اور غلط منصوبہ بندی کے نتیجہ میں داخلوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کے اختتام تک مالی خسارہ ایک ارب 20 کروڑ روپے تک پہنچ جائیگا۔ اس ضمن میں ملنے والی دستاویزات کے مطابق مالی سال 2019-20 میں یونیورسٹی خسارہ 543 ملین کے قریب تھا جبکہ موجودہ مالی سال کے نصف میں یہ خسارہ بڑھ کر 865.57 ملین ہو گیا جبکہ مالی سال کے بقیہ تین ماہ میں یہ خسارہ 1200 ملین سے تجاوز کر جانے کا خدشہ ہے‘ امسال یونیورسٹی کی اپنے ذرائع سے آمدن 45 کروڑ 35 لاکھ روپے رہی۔ ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے 74 کروڑ 49 لاکھ روپے وصول ہوئے۔ جبکہ اب تک ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز کی مد میں ایک ارب 74 کروڑ 94 لاکھ روپے ادا کئے جا چکے ہیں۔ اس خسارے کے باعث یونیورسٹی انتظامیہ کو آئندہ کچھ عرصہ میں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی مسئلہ بن سکتی ہے۔ اس مالی خسارے کی بڑی وجہ یونیورسٹی کے ہر تدریسی شعبہ کی جانب سے اپنی علیحدہ بلڈنگز کی تعمیر ہے جس کے لئے پی سی ون تیار کر کے ہائر ایجوکیشن کمشن یا حکومت سے گرانٹ حاصل کرنے کے یونیورسٹی ذرائع کے فنڈز استعمال کئے جانا ہے اور سربراہان ادارہ جات کی جانب سے ’’شاہ خرچیوں‘‘ کو کنٹرول نہ کیا جانا ہے۔