نظرِ تغافلِ یار کا گِلا کِس زبان میں بیاں کروں۔؟

یوں تو’پی ڈی ایم‘کی تحریک آغازسے ہی نشیب وفرازسے گزری۔مگرگذشتہ اجلاس کی ہنگامہ خیزی کچھ زیادہ رہی،جس نے ایک طرف اس کے مستقبل کے بارے میں شکوک وشبہات بڑھائے تودوسری طرف آپس کے گِلوں شکوئوں کی گونج دور تک سُنائی دی۔ بالخصوص مریم نواز کے آصف زرداری سے گلے کی باز گشت ابھی تک آرہی ہے۔جب زرداری نے ’لانگ مارچ ‘ کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کرتے ہوئے مشوردیا کہ ’’ اگر جنگ لڑنی ہے تو پاکستان واپس آنا ہو گا، لڑنا ہے تو سب کو جیل جانا ہو گا‘‘ اس پر مریم کا جواب قابلِ توجہ تھا کہ ’’نواز شریف کو نیب کی حراست میںمارے جانے کا خوف ہے ، زرداری ان کی زندگی کی ضمانت دیں تو وہ واپس آ سکتے ہیں‘‘۔ یہ باز گشت اتنی شدید تھی کہ اس میں مولاناکے گلے شکوے دب گئے۔کیونکہ پی ڈی ایم ‘ کے فلاپ ہونے کا جتنا نقصان مولانا کو ہوگا شاید کسی کو نہیں ہوگا۔ جبھی اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت میں مولانا کے اندر کا کرب ان کے لہجے سے عیاں تھا۔ان کا چہرہ دل کی کیفیت کی چغلی کھا رہا تھا۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں اختصار سے کام لیا اور مختصر لفظوں میں 26مارچ کے ’ لانگ مارچ‘ کے التوا کا اعلان جس بے دلی سے کیا اس سے بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اجلاس میں گِِلوں شکوئوں کاماحول کتنا گرم رہا ہو گا؟کہ ’پی ڈی ایم ‘کے وجود پر سوال اٹھنے لگے۔ مولانا کی ’باڈی لینگوئج‘ بھی دِلی کرب کی غماز تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا نے جس تندہی سے تحریک کو لیڈ کیا یہ انہی کا خاصا ہے۔ ورنہ بلاول زرداری یا مریم نواز کے بس کی بات نہیں تھی۔ پی پی اور نواز لیگ سے ہمدردی رکھنے والے صحافی ان دونوں کو بھٹو اور نواز شریف سے بڑا لیڈر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ حقیقت کا ادراک انہیں بھی ہے کہ ان دونوں کو ابھی سیاست کے داؤ پیچ سیکھنے کے لیے  وقت چاہیے۔ یہ مولانا کا ہی کمال ہے کہ مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا۔ وہ جو ایک دوسرے کا وجود تک برداشت کرنے کو تیار نہیں ، جس کا گِلا آصف زرداری نے کیا بھی کہ انہوں نے 14سال جیل کاٹی) یہ سب ایک پلیٹ فارم پر بظاہر اکٹھے تو دکھائی دیے مگر اب اندورنی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔خاص طور پر جب جلسوں جلوسوں سے بات نہ بنی تو ’پی ڈی ایم‘ کی اکثر جماعتیں استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کو بے تاب نظر آئیں۔ استعفیٰ آپشن ’پی ڈی ایم‘ کی خام خیالی تھی، جس پر حالیہ اجلاس میں بھی زرداری نے اپنا موقف دہرایا کہ ’’ استعفوں سے ’پی ڈی ایم ‘کمزور ہو گی اور حکمرانوں کو تقویت ملے گی۔ بات درست ہے۔’پی ڈی ایم ‘ استعفیٰ آپشن سے حکومت گرانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اپوزیشن کے پاس ایک ہی واحد آئینی راستہ ہے اور وہ ہے ’ان ہاؤس تبدیلی‘ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس اگر ایک فیصد چانس بھی ہوتا تو پی ٹی آئی کو کبھی حکومت نہ بنانے دی جاتی۔  کسی بھی اتحادی کو توڑ کر مطلوبہ اکثریت حاصل ہو سکتی ہے، مگرمتبادل کون ہو گا؟ بڑا سوال یہ ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں اندر سے نہیں چاہتیں کہ کوئی دوسرا حکومت بنائے بلکہ پنجابی کہاوت کے مطابق’’ گرو تے چیلا لالچی، دونوں داؤ دائی‘‘دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں جماعتوں کی تیسرے درجے تک کی قیادت نیب کے شکنجے میں ہے، اس سے بڑھ کر نواز شریف اپنے یا بیٹی اور زرداری بلاول کے سوا کسی کو حکمران دیکھنا نہیں چاہتے۔ پی ٹی آئی کے اندر اقتدار کی منتقلی نہ توآسان ہے اور نہ ہی دونوںجماعتوں کو قابلِ قبول ہے۔ 3مارچ کو سینیٹ انتخاب میں آصف زرداری کی طرف سے یوسف رضاکو میدان میںاتارنا،اسی ’ان ہاؤس تبدیلی‘ کی طرف پیش رفت تھی۔ تاہم زرداری نے بھی یوسف رضا گیلانی کو ہروا کر جیتنے سے زیادہ مفادات حاصل کر لیے ہیں جنہیںآنے والا وقت ثابت کرے گا۔ پی پی کی جانب سے مسترد ووٹوں کے بارے میں بار باریہ وضاحت کہ ’نشان سیکرٹری سینیٹ سے پوچھ کر لگائے گئے تھے‘‘ سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ یہ مسترد ووٹ پی پی کے ہی تھے، ظاہر ہے انہیں ضائع کرنے کا پیغام سوائے زرداری کے اور کون دے سکتا ہے؟ زرداری کایوسف رضا کے جیتنے میں فائدہ تھا یاہارنے میں ؟ یہ وقت بتائے گا۔ البتہ حکومت کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیغام دیا گیاہے کہ حکومتی اتحادیوں سمیت خود پی ٹی آئی میں بِکنے والوں کی کمی نہیں ،نئے ’’سلیکٹڈ ‘‘پر ’ایکشن ری پلے‘ ممکن ہو سکتا ہے۔ اپنا قبلہ درست کر لو!  

ای پیپر دی نیشن