یوم ثقافت

انہی دنوں میں عورت مارچ بھی ہوا جو کہ کافی موضوع بحث رہا اور سوچنے اور بحث کرنے کی وجوہات بھی تھیں جوکچھ بھی ہوا ایک عورت ہونے کے ناطے میںخود بھی اس قدر بے جا اور بے پناہ آزادی کے حق میں نہیں ہوں۔عورت مارچ میں ایسے ایسے شرمناک افعال کے ذریعے آزادی اور حقوق کی آواز اْٹھائی گئی کہ میں نے دل میں اپنی چاردیواری پر ہی فخر محسوس کیا۔خیر دوسرا دن کلچرڈے یعنی پنجاب کلچر ڈے کے طور پر منایا گیا دونوں دن ایک دوسرے کی ضد لگے۔ہمارا کلچر، ہماری روایات ،ہماری تہذیب ،ہمارے رسم ورواج تو اس عورت مارچ میں لگائے گئے نعروں کی مکمل نفی کرتے ہیں۔سجاد میر صاحب نے سچ کہا ہے کہ کون ہیں یہ علی ظفر اور میشا شفیع جن کا میڈیا ڈھول بجا رہا ہے۔جناب اب ڈھول بجانے اور باجے گاجے کرنے والوں کے ہی ڈھول بجائے جاتے ہیں۔سچ کہا کہ باقی اہم خبروں کو نظرانداز کرکے ان دوکرداروںکوسالوں سے اس قدر اہم بنا دینا فہم وادراک سے بالا ہے ان کے کرتوتوں کو اس قدر اہمیت دینا ہماری اپنی غلطی ہے۔یہ اْن کا ذاتی مسئلہ ہے انہیں آپس میں ہی نمٹ لینے دیجئے۔ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مسائل لوگ خود ہی حل کر رہے ہیں۔اب کے جو کلچر ڈے منایا گیا اْس کی معدوم ہوتی جھلکیاں بس قدیم کتابوں کے اوراق میں ہی دم توڑ رہی ہیں جبکہ کالج یونیورسٹی سے نکلتی لڑکیوں کے ملبوسات تو کچھ اور ہی منظر پیش کرتے ہیں۔عورت مارچ میں لگائے جانے والے تو کچھ اور ہی مفہوم بیان کر رہے تھے۔سگریٹ کے کش لگاتی خواتین تواْس کلچر کا حصہ نہیں لگ رہی تھیں جن کے سر بڑے بزرگوں کو دیکھ کر جھک جاتے تھے۔سگریٹ کا کش لگاناتو دور سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا اب جو ہورہا ہے وہ کلچر سے بغاوت اور دْوری ہے جب انسان روایات کے متضاد رویہ اختیار کرلیتا ہے تو اْسے بغاوت کا نام دیا جاتا ہے اب ہمارے کلچر اور ثقافت سے بغاوت کا آغازہوچکا ہے۔کلچر ڈے منانے سے سب لوٹ نہیں آئے گا اس کے لئے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت تھی کیا یہ ہم ہی نہیں تھے جنہوں نے اپنے بچوں کے ذہنوں سے اپنی علاقائی اور مادری زبانوں کو کھرچ کر پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کیا یہ ہم ہی نہیں ہیںجو انگلش میڈیم سکولوں کو اْردو میڈیم پر ترجیح دیتے اور ان میں اپنے پڑھنے والے بچوں پر فخر محسوس کرتے ہیں۔عجیب ہے ساتھ ہی کلچر ڈے کا جشن بھی دھوم دھام سے منارہے ہیں۔یوم ثقافت کو محض لباس پہن کر زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ساگ اور مکئی کے ڈھابے لگا اور چاٹی کی تیار لسی کے اشتہار بھی اس کے کسی کام نہیں آ سکتے۔کلچر ایک سوچ کا نام ہے جہاں ماں بہن بیٹی سانجھی سمجھی جاتی ہے اس کی عزت اپنے گھر کی عزت کی طرح پیاری ہوتی ہے لیکن اب تو ہم نے ان رشتوں کی پامالی میں کوئی کسر نہیں اْٹھا رکھی۔ایسے ایسے گھنائونے افعال ہمارے بیچ کے لوگ ہی انجام دے رہے ہیں جہاں ماں ، بہن اور بیٹی کا فرق اور تقدس پامال ہورہا ہے اس سسٹم کو بریک کردیتے ،درندوں سے نہ صرف اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرپاتے بلکہ درندگی کی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرتے چھوٹوں کو بڑوں کا ادب کرنا سکھادیتے۔چلنے، بولنے اور رہنے سہنے کے طور طریقوں پر غور ہوتا تو ہم فخر سے کلچر ڈے مناتے اور پھر یہ سب اچھا بھی لگتا۔ مجھے کسی قاری نے سوال کیا تھا کہ آپ ہر موقع پر خلاف کیوں لکھ دیتی ہیں تو میرے بھائی اگر میں غلط کہہ رہی ہوں تو میری تصحیح کردیجئے۔عورت مارچ میں سب جائز ہورہا ہے تو پھر اس پر دلیل سے بات کیجئے۔ہماری ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبروبے نیاز رہنا چاہتے ہیں لیکن میں یہ نہیں کرسکتی۔میں جو دیکھوں گی اور جو محسوس کروں گی اْسے بیان بھی کروں گی۔ اب آپ کے ذہنوں میں یہ سوال بھی آرہا ہوگا کہ میں انگریزی زبان اور انگریزی اشیاء سے بھی منکر ہوں ایسا بھی نہیں ہے۔ تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے ہمیں دوسرے علوم بھی سیکھنے ہیں۔میری عرض تو صرف اتنی سی ہے کہ کلچر کو محض زبان اور لباس تک محدود رکھ کر نہ سوچا جائے۔سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اپنی تصاویر شیئر کیں اور ساتھ میں لکھا کہ میں پنجاب ہوں، اچھی بات ہے مجھے خود پنجاب ہونے فخر ہے۔اْس پر جٹ برادری سے تعلق رکھنا جذبے کو مزید ہوا دیتا ہے۔ہم سے زیادہ اپنے پنجابی ہونے پر کسے فخر ہوگا۔ہمیں کلچر کی اصل رْوح کو سمجھنے کی ضرورت ہے وگرنہ پنجابی لباس تو ہم بھی زیب تن کرتے ہیں۔ اپنے بڑے بزرگوں سے ہم بھی پنجابی میں ہی بات کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن