تجزیہ: محمد اکرم چودھری
او آئی سی اجلاس پر اپوزیشن کا مثبت رویہ خوش آئند ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اڑتالیسویں ویں اجلاس کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے وزرائے خارجہ، مندوبین اور دیگر شخصیات کی آمد کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس اہم اجلاس کے موقع پر اپوزیشن نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس کے پرامن اور بغیر کسی رکاوٹ کے انعقاد کو یقینی بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا انہیں ہر حال میں او آئی سی کے اجلاس پرامن انعقاد کے حوالے سے تعاون کرنا ہی تھا لیکن چند رہنماؤں کے بیانات سے پیدا ہونے والی صورتحال میں حزب اختلاف کی طرف سے ایسے اعلامیے کا جاری ہونا ضروری تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پیر کے دن عدم اعتماد پیش نہ ہوئی تو ایوان سے نہیں اٹھیں گے اور دیکھتے ہیں آپ او آئی سی کانفرنس کیسے کرتے ہیں؟ یہ ایک غیر سنجیدہ بیان تھا بدقسمتی سے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے بھی بلاول کے اعلان کی تائید کرتے ہوئے ایوان میں دھرنے کا اعلان کر دیا۔ ان بیانات کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر اپوزیشن نے اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کو تو ناتجربہ کار کہا جا سکتا ہے لیکن میاں شہباز شریف تو طویل عرصے سے سیاست اور حکومت کا حصہ ہیں ان کی طرف سے ایسے ردعمل کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ میاں شہباز شریف کی موجودگی میں چیزوں کو بہتر انداز میں چلائے جانے کی توقع رہتی ہے لیکن اگر وہ بھی جذباتی ہو کر بیانات جاری کریں گے یا جذباتی بیانات کی تائید شروع کر دیں گے تو سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا، سیاسی جماعتوں کے کارکنان مشتعل ہوںگے اور بیٹھے بٹھائے ملک کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جسے کوئی بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ علاقائی یا عالمی تنظیموں کے ساتھ ہونے والے پروگراموں کو سیاسی تعلقات یا اختلافات سے بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔