شب ِ برأت مبارک !او آئی سی

معزز قارئین ! 15 شعبان المعظم 1443ء ( 19 مارچ 2022ء ) کو پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے اپنے انداز میں عقیدت و احترام سے ساتھ شب ِ برأت منائی۔ مساجد اور گھروں میں عبادات ، میلاد شریف اور نعت ہائے رسولؐ مقبول کا انتظام کِیا گیا۔ قرآنِ پاک میں شب ِبرأت کو ’’لیلہ مبارک ‘‘ کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اِس رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر معاملے کا حکیمانہ اور محکم فیصلہ صادر کیا جاتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے نصف شعبان کی اِس مبارک رات قیام کرنے اور دِن کو روزہ رکھنے کی تاکید کی ہے‘‘۔ حدیث رسول ؐمقبول کے مطابق ۔شبِ برأت کو اللہ تعالیٰ سب سے نچلے آسمان پر اُتر آتے ہیں اور اِنسانوں کو اُن کے گُناہ کبیرہ اور صغیرہ معاف کرنے کے لئے پکارتے ہیں ‘‘۔ اِس لئے یہ رات ’’لیلۃ اُلبراۃ ‘‘ بھی کہلاتی ہے (یعنی مغفرت کی رات )۔روایات کے مطابق ’’شبِ برأت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے "جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو اس حدیث پر مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں!‘‘
’ ’ روایت ِ باب اُلعلم ؓ! ‘‘
’’باب اُلعلم ‘‘ ، حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ ’’ مدینۃ اُلعلم ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے فرمایا کہ ’’ جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تو ، رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان ِ دنیا پر نازل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے ، ’ ’ ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ مَیں اُسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اِس کو رزق دوں ، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ مَیں اُسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے!‘‘۔ 
’’ شب ِ توبہ ! ‘‘
گناہ سے پچھتانے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے کو ’’ توبہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اِسی لئے شب ِ برأت مسلمانوں کیلئے ’’ شب ِ توبہ‘‘ کا درجہ رکھتی ہے ۔ معزز قارئین !۔ ہم مسلمانوں کے گھروں میں والدین اور مساجد میں عُلماء کرام اپنے بچوں اور طلبہ و طالبات کوقرآن پاک کی ’’سُورۂ توبہ‘‘ بھی پڑھاتے ہیں ۔ ’’سُورۂ توبہ ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں ( عوام کی بھلائی پر ) خرچ نہیں کرتے تو ، آپ اُنہیں درد ناک عذاب کی بشارت دیجئے، جس دِن کہ ’’ سونا اور چاندی دوزخ کی آگ میں گرم کِیا جائے گا اور پھر اُس سے اُن کی پیشانیاں ، اُن کے پہلو اور اُن کی پشتیں داغی جائیں گی اور اُن سے کہا جائے گا کہ ’’ یہ وہی سونا چاندی ہے ، جس کو تم نے جمع کر رکھا ہے ، سو اب تُم اُس چیز کا مزا چکھو جو تم جمع کرتے رہے ہو!‘‘۔ 
’’قُلِ الْعَفو ‘‘
قرآن پاک کی ایک آیت ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ’’( اللہ کی راہ میں ) کِس قدر خرچ کریں ؟‘‘ آپ ؐ اُنہیں جواب دے دیں کہ ’’ جتنا تمہارے خرچ سے بچ جائے ‘‘۔
’’ مصّورِ پاکستان / بانی ٔ پاکستان ! ‘‘
مصّورِ پاکستان ، علاّمہ اقبالؒ جب، وکالت کرتے تھے تو، وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد وُکلاء میں تقسیم کردیتے تھے۔ معزز قارئین! یہ گویا علاّمہ صاحب کا اپنے دوست / شاگرد وُکلاء سے ایک طرح کا رشتہ مؤاخات ؔ تھا۔ معزز قارئین !۔ بانی ٔ پاکستان ، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جب گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالا تو، اپنی ساری جائیداد قوم کے نام کردِی تھی اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں اپنے شانہ بشانہ شریک اپنی ہمشیرہ ٔ محترمہ ، فاطمہ جناحؒ کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا، جنہیں جنابِ مجید نظامیؒ نے ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا ! ۔ 
’’ پاکستان اور نیا پاکستان ! ‘‘
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ’’ 14 اگست 1947ء کو، پاکستان قائم ہُوا ۔11 ستمبر 1948ء کو ، قائداعظمؒ کا وِصال ہُوا اور 16 اکتوبر 1951ء کو ، قائداعظمؒ کے دست ِ راست ، تحریک پاکستان کے قائد ، وزیراعظم لیاقت علی خان کو ، راولپنڈی کے ایک جلسۂ عام میں شہید کردِیا گیا ۔ پھر کیا ہُوا ؟ آپ سب جانتے ہیں ۔ پاکستان کے پہلے صدر ، میجر جنرل سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کِیا ، آرمی چیف محمد ایوب خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے ،مارشلائی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے ۔ 20 دِن بعد ( 27 اکتوبر 1958ئ) کو صدر محمد ایوب خان نے سکندر مرزا کو برطرف کر کے جلا وطن کردِیا ، جنابِ بھٹو پھر مارشلائی کابینہ میں شامل تھے ۔ معزز قارئین !۔ اب مَیں مختصر بات کر رہا ہُوں کہ ’’بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ، 16 دسمبر 1971ء کو ،سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا ’’ بچے کھچے پاکستان‘‘ کو ’’ نیا پاکستان ‘‘ قرار دِیا۔ 
’’ پھر نیا پاکستان ؟ ‘‘ 
25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد ، 25 اگست 2018ء کو جنابِ عمران خان نے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایا ۔ 9 ستمبر 2018ء کو عارف اُلرحمن علوی نے صدارت کا منصب سنبھالا۔ پھر کیا ہُوا ؟ ۔ آپ سبھی جانتے ہیں ۔ شب ِبرأت تو، حکومت میں شامل ’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘ اور اُس کی اتحادی جماعتوں اور حزبِ اختلاف کی سبھی جماعتوں کے قائدین اور ریاست ِ پاکستان کے چاروں ستونوں میں شامل ارباب ِ اختیار نے بھی منائی ہوگی؟۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ’’ علاّمہ اقبالؒ نے ہر مسلمان حکمران کے لئے کیا خوب شعر کہا  تھا کہ 
قوت ِ عشق سے ہر پَست کو بالا کردے!
دہر میں، اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے!
’’ اسلامی تعاون تنظیم ‘‘ کا اجلاس 23-22 مارچ کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ مبارک ہو !۔’’ او آئی سی ‘‘ ۔

ای پیپر دی نیشن