فکر فردا/ ڈاکٹرمرتضیٰ مغل
drmurtazamughal@yahoo.com
پنجاب ہیلتھ کیئر کمشن کے قیام کو اب 13 برس ہونے کو ہیں۔اس کمشن کو قائم کرنے کے پیچھے ایک تعمیری سوچ کارفرما تھی۔بتایا گیا تھا کہ،"حالیہ برسوں میں طبی غفلت، بدانتظامی اور بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے سلسلے کی روشنی میں، سرکاری اور نجی دونوں اداروں میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی فراہمی کو منظم کرنے کے لیے صوبائی سطح پر ایک خود مختار اتھارٹی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ پنجاب حکومت نے طبی غفلت کے واقعات کا نوٹس لیا اور پی ایچ سی ایکٹ 2010 نافذ کیا۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کا قیام ہر سطح پر صحت کی معیاری خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے اور مریضوں کی صحت کے تحفظ کے لیے کیا گیا۔اولین مقاصد میں سب کے لیے اعلیٰ معیار اور محفوظ صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی فراہمی بتائی گئی۔مزید بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں ہیلتھ کیئر سروس کی فراہمی کے معیار کو مسلسل بلند کرنا۔ پنجاب میں معیاری صحت کی دیکھ بھال کے لیے کوشاں رہنا بھی اس کمشن کا مشن ہے۔کمشن کہتا ہے کہ،" ہم صحت کے شعبے سے وابستہ ملازمین کے ساتھ ساتھ عام طور پر کمیونٹی کے لیے قدر بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ مثبت فرق آئے گا اور ساتھ ہی کمشن اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ اس عمل میں کوئی پولیسنگ نہیں ہے۔ہم ایک ایسا ماحول بنانے کے لیے ٹیم ورک کی مثبت طاقت پر یقین رکھتے ہیں جو تنظیمی اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے ہر فرد کی صلاحیتوں اور شراکت کا احترام اور اعتراف کرے۔ ہم اپنی تنظیم کی حکمت عملیوں کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق نافذ کرنے کے لیے پرجوش ہیں اور اپنی ترجیحات پر واضح توجہ کے ساتھ ہم سے جو توقع کی جاتی ہے اسے فراہم کرنے کے لیے پوری دلی لگن رکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام کے ہر پہلو میں ایمانداری، مضبوط اخلاقی اصول اور اعلیٰ اخلاقی معیارات ضروری ہیں۔ ہم اپنے تمام اعمال کی ذمہ داری قبول کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ہمارا مقصد پنجاب کے لوگوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی فراہمی کے معیار کو بہتر بنانا ہے جس میں ادویات اور سرجری کے ایلوپیتھک نظام، ہومیوپیتھی جیسے متبادل ادویات کے نظام اور طب شامل ہیں۔صحت کی خدمات فراہم کرنے والوں کی رجسٹریشن، لائسنس ، کم از کم سروس ڈیلیوری کے معیارات (MSDS) کے نفاذ کی نگرانی، ان کو ریگولیٹ کرنا۔ بدانتظامی، بدعنوانی، طبی غفلت کے بارے میں انکوائری اور تحقیقات کمشن کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔اپنے مقصد کیلئے کمشن نے رجسٹریشن کے مراحل تیزی کیساتھ طے کئے ہیں۔اتائی ڈاکٹروں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور لائسنس کے اجرائ اور تجدید کے عمل کو بھی شفاف بنایا گیا ہے۔لیکن پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اوراور اس کے ہر علاقے میں بے شمار چھوٹے بڑے کلینک کھلے ہیں اور کھلتے رہتے ہیں۔ریگولیشن ایک مسلسل عمل ہے اور کمشن کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ عوام کی صحت کی حفاظت کا ہدف ایک بڑی حد تک حاصل کر لیا گیا ہے۔پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ کسی بھی شعبہ کے ریگولیٹر خوف کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں۔کاش ایسا ہو کہ کسی طرح کی رجسٹریشن حاصل کرنے کے فوائد بھی سامنے لائے جائیں ۔ایسا شوق پیدا کیا جائے کہ متعلقہ لوگ اور ادارے خود آگے بڑھیں اور رجسٹریشن کے تقاضے پورے کرکے حکومت کیطرف سے کوئی انعام پائیں ۔پنجاب ہیلتھ کئیر کمشن کی طرف سے آگاہی مہم کا فقدان ہے۔یہ بھی واضح نہیں کہ اتائی ڈاکٹر کی صحیح تعریف کیا ہے۔طب اور ہومیوپیتھک طریقہء علاج تو ایک سستا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔اس میں آمدن کا وہ تصور نہیں جو ایلوپیتھک کے ساتھ وابستہ ہے۔کمشن کو ہومیوپیتھ ڈاکٹروں کے ساتھ خصوصی سلوک کرنا چاہیے۔یہ قدریکم فیس لیکر ہفتہ بھر کی دوائی فراہم کرتے ہیں۔ان کیلئے رجسٹریشن کی بھاری فیس ادا کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔وہ تمام ہومیوپیتھک ڈاکٹر جو کسی نہ کسی ھومیوپیتھی کونسل کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں انہیں اتائی ڈاکٹر ہر گز نہیں کہا جاسکتابشرطیہ کہ وہ جس پیتھی سے متعلق ہیں اسی کی دوا مریض کو دیں۔ایسے ڈاکٹروں کو ہراساں کرنے سے عوام کیلئے سستے طریقہ علاج کا راستہ مسدود ہوگا۔PHCکی رجسٹریشن بھی کلینک کی ہوتی ہے،مستند ڈاکٹروں کی نہیں۔پکڑدھکڑ بھی ان لوگوں کی ہونی چاہیے جو بغیر کسی سند کے پریکٹس کرتے ہیں اور لوگوں کی صحت کے ساتھ کھیلتے ہیں۔کمشن کیلئے چند تجاویز پیش کررہا ہوں۔کمشن کے بورڈ آف کمشنرز میں ملک کے معروف ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو بھی شامل کیا جائے۔جو ڈاکٹر فری کیمپ کے ذریعے مفت ادویات دیتے ہیں اور عوامی صحت کے شعبے میں خدمات انجام دیتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کا بھی کوئی نظام وضع ہونا چاہیے۔میں گزشتہ 20 برس سے فری کیمپ کے ذریعے غریب لوگوں کا علاج کررہا ہوں۔مجھے علم ہے کہ مہنگی ادویات اور دیگر اخراجات کے باوجود مفت علاج اور ادویات فراہم کرنا کسقدر مشکل کام ہوچکا ہے۔لیکن ریگولیٹر ایسے عمل کی پذیرائی کی بجائے ایک ہی لاٹھی کیساتھ سب کو ہانکتے ہیں۔اگر ممکن ہو تو ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کو ان کے تجربے اور خدمات کے لحاظ سے کیٹیگرائز کر دیا جائے۔ڈاکومینٹیشن کو آسان کیا جائے۔بار بار ڈاکیومنٹ طلب کرنا کم آمدن والے ڈاکٹروں کو رجسٹریشن کے عمل سے بد دل کر دیتا ہے۔کمشن کا مقصد صحت کے شعبے میں ایسا نظم و ضبط پیدا کرنا ہے جس سے علاج معالجے کی بہترین،آسان،فوری اور سستی سہولیات کی دستیابی ممکن ہوسکے۔اس کیلئے ہومیوپیتھک شعبے کو آگے لانا اور اس سے وابستہ ڈاکٹروں کی ترجیحی بنیادوں پر سرپرستی واحد حل ہے۔ ڈاکٹروں کوچھوٹی چھوٹی باتوںپرخوف زدہ کرنے سے اکبر الہ آبادی کا شعر یاد آتا ہے
ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں
ہر موڑ پہ اک لائسنس طلب
اس پارک میں آخر اے اکبر
ہم نے تو ٹہلنا چھوڑ دیا