فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
راقم السطور کے آبائی ضلع جہلم کے شہر سوہاوہ میں قائم القادر یونیورسٹی سابقہ دور حکومت کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے۔ عصری علوم کے ساتھ ساتھ سیرت پاک اور تصوف کوتحقیقی اور سائنسی انداز میں پڑھانااور طلباء کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرنا اس منفرد تعلیمی ادارہ کا بنیادی مشن ہے۔یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جس کو دینی اور روحانی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔اس طرح کا ادارہ وقت کی اہم ضرورت تھا کیوں کہ ملک عزیزپاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود آیالیکن بدقسمتی سے عملی طور پر اسلام کی ترویج و اشاعت اور اسلامی نظام کے حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدامات نہ ہو سکے اور نہ ہی نسل نو کی تربیت کا اہتمام ہو سکا۔نتیجہ سب کے سامنے ہے۔معاشی بحران تو بے قابو ہے ہی عوامی ہجوم بد ترین اخلاقی زوال کا شکار ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے مذہبی و مسلکی لحاظ سے تقسیم در تقسیم قوم سیاسی گروہوں میں بھی بٹ چکی ہے۔ اب تو حالات دلائل،گفتگو ،تو تکار ،گالم گلوچ سے ہوتے ہوئے مکوںگھسنوں تک پہنچ گئے ہیں۔بقول حیدر علی آتش
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگری تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
اس صورت حال کا حل حقیقی صوفیاء کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔قوم کی تعلیم و تربیت کے یہ آزمودہ نسخے چودہ سو سال قدیم ہیں۔مغرب کے مستشرقین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا سیاسی زوال تو بار ہا ہوا لیکن روحانی اسلام میں ترقی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔انگلستان کے ایک صاحب علم ایچ۔اے۔ آر گب نے ایک مرتبہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے تو کمال بات کہ دی۔فرمایا ’’ اسلامی تاریخ میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا لیکن بایں ہمہ اسلام مغلوب نہ ہو سکا۔اس کی بڑی و جہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیہ کا انداز فکر اس کی مدد کو آجاتا تھااور اس کو اتنی توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی‘‘۔ مغربی دانشواروں کی مثالیں اس لیے دینا پڑیں کہ ہمارے دیسی لبرلز ان کی ہی مانتے ہیں۔حقیقت تو یہی ہے کہ بزرگان دین کی بصیرت و حکمت نے ہی قوم کو یکجا رکھا، برداشت کے کلچر کو فروغ دیا ،مادیت کے سیلاب کے آگے بند باندھے،اخلاقیات کا درس دیا اور انسانیت کی عظمت کا پرچم سر بلند کیا۔ہمارے بھولے نوجوان جن کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں وہ آج کل روحانیت کی تلاش میں ہیں۔مغربی دنیا میں لوگ امام غزالیؒ، ابن عربی ؒ،جنید بغدادیؒ،جلال الدین رومیؒ،خواجہ غریب نوازؒ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر رہے ہیں۔ایک ہم ہیں کہ اپنے اس قیمتی ورثہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
القادر یونیورسٹی شعبہ علوم اسلامیہ کے منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے دور حاضر کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے مورخہ آٹھ اور نو مارچ کو عظیم الشان دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کر دیا۔سیمینار کا عنوان ’’عصر حاضر میں تصوف کی ضرورت و اہمیت ‘‘ تھا۔ اس کانفرنس میں بین الاقوامی سکالرز پروفیسرڈاکٹر محمد مرسلین ( مالدیپ )،پروفیسر ڈاکٹر محمد زیدملک (کنگ سعود یونیورسٹی سعودی عرب) کے علاوہ قومی دانشوروں ڈاکٹر نور الحق قادری ،پروفیسر ڈاکٹر ضیا الحق،ڈاکٹر سید سلطان شاہ ، سید منور علی شاہ جماعتی ، صاحبزادہ احمد علی ، پروفیسر ڈاکٹر علی اکبر الازہری ، پروفیسر ڈاکٹر عقیل احمد ، علامہ احمد علی ،پروفیسر ڈاکٹر ساحرصاحب ، پروفیسر ڈاکٹر ہمدانی صاحب ،پروفیس ڈاکٹر شبیر احمد صاحب، ملک عزیز کی بڑی جامعات کے شعبہ جات کے صدور، اساتذہ کرام اور صاحبان علم نے شرکت فرمائی۔یہ کانفرنس اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑی عمداور قابل تقلید کاوش ہے۔ سرکاری اور نجی یونیورسٹیز میں ایسی کانفرنسز کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ تربیت یافتہ جوان ملک عزیز کی باگ ڈور سنبھالیں۔
القادر یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے تمام فیکلٹی ممبرز نے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر ظہور اللہ الازہری کی قیادت میں محدود وسائل کے باوجود ایک بڑا ایونٹ منعقد کیا۔اہل وطن اس کاوش پر مبارک باد اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ڈاکٹرظہوراللہ صاحب درد دل رکھنے والے درویش منش ابھرتے ہوئے سکالر ہیں۔تقاریر کی صورت میں موضوع کے حوالے سے ایک بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو کتاب کی صور ت میں شائع کیا جائے۔مخیر حضرات آئیں اور اپنا حصہ ڈالیں
اہل تصوف کا پیغام یہ ہے کہ ہدایت و اصلاح کی کامیابی کا انحصار ہادی یا مصلح کی کی ذہنی کے ساتھ عملی صلاحیتوں پر ہو تاہے۔ کسی فرد سے نصحیت کے چند جملے کہ دینا کوئی مشکل کام نہیں لیکن اس نصحیت کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی کا سانچہ بدل دینا مشکل کام ہے۔اس کے لیے کردار کی خوبیاں درکار ہیں۔سانحہ یہ ہے کہ ہمارا معلم اعلیٰ تعلیم یافتہ تو ہے لیکن کردار کی مطلوبہ خوبیوں سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم میں تعلیم تو ہے کردا رنظر نہیں آتا۔بقول پروفیسر خلیق احمد نظامی ’’بے عمل انسان کے الفاظ کسی کی لوح دل پر نقش نہیں بنا سکتے۔دل تک تو اس شخص کی آواز پہنچتی ہے جس کے پیچھے عمل کی بے پناہ طاقت ہوتی ہے‘‘۔ شاعر نے کیا خوب کہا
واعظ کا ہر ایک ارشاد بجا، تقریر بہت دلچسپ مگر
آنکھوں میں سرور عشق نہیں ، چہرے پہ یقیں کا نور نہیں
سچی بات ہے کہ ہمارے اسلاف عمل اور خلوص کی دولت سے مالا مال تھے۔ان کی تعلیمات آج بھی موثر ہیں۔تصوف کانفرنس کا سبق یہ ہے کہ صوفیا ئ کے طریقوں کو عملی زندگی اور تعلیم و تربیت میں اپنایا جائے۔