جالب اک درویش تھا۔ یہ اللہ والے زندہ بھی اس لیے ہوتے ہیں کہ اعلیٰ انسانی اقدار زندہ رہیں۔ پھر مرتے بھی اس لیے ہیں کہ اعلیٰ انسانی اقدار کہیں مر نہ جائیں۔ جس زمانے میں بھٹو کا ٹکٹ اسمبلی میں داخلے کا پروانہ تھا ۔جسے کھمبوں پر لٹکایا گیا تو وہ بھی اسمبلی پہنچ گئے۔ اسی سمے بھٹو نے جالب سے کہا، ہم نے ایک پارٹی ٹکٹ آپ کے لیے بھی رکھا ہے ۔ کہنے لگے ، سرکار !آپ نے یونہی تکلف کیا، میں نے آپ کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ہی نہیں۔ پھر اس نے لاہور سے ایک الیکشن لڑا بھی ۔ کتنے ووٹ ملے ؟ جیتا یا ہارا ؟ یہ بے معنی سے سوالات ہیں۔ وہ فتح و شکست سے بہت آگے کا آدمی تھا۔ جنرل ایوب خان کی مارشل لاءکو تین چیزیں کھا گئیں: مادر ملت کی جرا¿ت، جسٹس کیانی کی نثر اور جالب کی شاعری ۔
پچھلی اتوار 12مارچ کو اس کی موت کا دن تھا۔ لیکن وہ مرا کب تھا ؟ وہ اپنی شاعری میں اب بھی زندہ ہے ۔ بہر حال اس کی یاد اک قرض تھا جو اب چکارہے ہیں۔ اس کی شاعری سے انتخاب ۔
ایک ہمیں آوارہ کہنا کو ئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
اس گلی میں بہت کم نظر لوگ تھے فتنہ گر لوگ تھے
زخم کھاتا رہا مسکراتا رہا شوقِ آوارگی
یہ بھیگی بھیگی برساتیں یہ مہتاب یہ روشن راتیں
دل ہی نہ ہو تو جھوٹی باتیں کیا اندھیارے کیا اجیارے
اس دیس کا رنگ انوکھا تھا اس کی دیس کی بات نرالی تھی
نغموں سے بھرے دریا تھے
رواں گیتوں سے بھری ہریالی تھی
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں
سورج کہاں نکلا ہے کہاں صبح ہوئی ہے ؟
نکلنے کو ہے وہ مہتاب گھر سے
ستاروں سے کہو نظریں جھکا لیں
سندر کلیو، کومل پھولو، یہ تو بتاﺅ یہ تو کہو
آخر تم میں کیا جادو ہے کیوں من میں بس جاتے ہو
میں چپ ہوں ذرا ڈوبتے خورشید سے پوچھو
کس کرب سے کس حال سے کس طور کٹا دن
رہنے کو گھر بھی مل جاتا چاکِ گریباں بھی سل جاتا
جالب تم بھی شعر سنانے جاتے اگر درباروں میں
اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے میری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے میری جاں
ایک لگن کی بات ہے جیون ایک لگن ہی جیون ہے
پوچھ نہ کیا کھویا کیا پایا کیا جیتے کیا ہار گئے
یہ حادثہ بھی عجب ہے کہ تیرے دیوانے
لگائے دل سے غمِ روزگار پھرتے ہیں
اس گلی میں کیا کھویا اس گلی میں کیا پایا
تشنہ کام پہنچے تھے تشنہ کام لوٹ آئے
جالب ایک آوارہ الجھنوں کا گہوارہ
کون اس کو سمجھائے کون اس کو سلجھائے
اس پھول کو پانا تو بڑی بات ہے لیکن
اس پھول کو چھونے میں بھی ناکام رہے ہم
ہم کو آوارہ و بے کار سمجھنے والو
تم نے کب اس بت کافر کو جواں دیکھا ہے
جالب مجھے تو ان کے گریباں کی فکر ہے
وہ جو منزلوں پہ لا کر کسی ہم سفر کو لوٹے
انھی رہزنوں میں تیرا کہیں نام آنہ جائے
نہ وہ ادائے تکلم نہ احتیاطِ زباں
مگر یہ ضد کہ ہمیں اہلِ لکھنو¿ کہےے
نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے
درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے
یہ کس نگر کو روانہ ہوئے گھروں والے
میراقصور میں ان کے ساتھ چل نہ سکا
وہ تیز گام میرا انتظار کیوں کرتے
غیر سوئے تیری زلفوں کی گھنی چھاﺅں میں
اور میں چاندنی راتوں میں فقط شعر کہوں
اگر ہے فکر گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ عذاب ہے دیوانگی سے جائے گا
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
کوئی دم کی رات ہے یہ کوئی پل کی بات ہے یہ
نہ رہے گا کوئی قاتل نہ رہیں گی قتل گاہیں
وہ جو ابھی اس رہ گزر سے چاکِ گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں
Mar 20, 2023