پیر، 27  شعبان المعظم،  1444ھ، 20  مارچ  2023ء


پی ٹی آئی کے گلو بٹوں نے سارے ریکارڈ توڑ دیئے
مسلم لیگ (نون) کے پاس تو ایک ہی گلو بٹ تھا جس نے چند نجی گاڑیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ اس پر سارا میڈیا اور پی ٹی آئی والوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور گلو بٹ غنڈہ گردی کا استعارہ بن گیا۔ اب دیکھ لیں وقت کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد پی ٹی آئی میں جس تیزی کے ساتھ تربیت یافتہ سینکڑوں گلو بٹوں کی انٹری ہوئی ہے وہ اطمینان کا باعث ہی ہو گی۔ وہی ڈنڈے اٹھائے جن کے سروں پر لوہا یا پتھر باندھا ہوتا ہے یہ بپھرے کارکن ’’دھرنا ہو یا جنگ، عمران ترے سنگ‘‘ کے نعرے لگاتے سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں پر یوں ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے ماضی کا نون لیگی اکیلا گلو بٹ توڑ پھوڑ کے لئے گاڑیوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ اسے تو بعد میں قانون نے گرفت میں لیا تھا۔ مگر ان سینکڑوں شاید ہزاروں گلو بٹوں کو کون سا قانون گرفت میں لے گا جو ابھی تک اپنی قانونی رٹ قائم نہیں کر پا رہا۔ عدالتیں پولیس گاڑیاں‘ نجی گاڑیاں‘ پولیس چوکیاں اور موٹر سائیکلوں پر یہ ڈنڈا بردار فورس حملہ آور ہوتی ہے۔ انہیں توڑتی ہے آگ لگاتی ہے۔ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے آگے یوں بے بس نظر آتے ہیں جیسے رضیہ غنڈوں کے آگے بے بس ہوتی ہے۔ ہاں یاد آیا گزشتہ روز زمان پارک میں آپریشن کلین اپ کے بعد وہاں رہائش پذیر گھریلو خواتین نے شکر ادا کیا ہے کہ ان اجنبی دوسرے علاقوں سے آئے ڈنڈا بردار لڑکوں سے علاقہ خالی کرا لیا گیا ہے۔ ورنہ وہ تو باہر نکلنے سے ہی خوفزدہ رہتی تھیں۔ مگر پھر رات کو یہی ڈنڈا فورس دوبارہ زمان پارک میں قابض ہو گئی ہے اور وہاں کے رہائشی سوائے اعتزاز احسن کے سب پھر بہت پریشان ہیں۔
    ٭…٭…٭
میڈیا پر سحر و افطار کے اشتہارات غریبوں کا جی جلانے لگے
ایک وقت تھا واقعی سحر ہو یا افطار ہر گھر کے دستر خوان پر ایک آدھ اضافی چیز نظر آتی تھی۔ یہ عام آدمی کے دستر خوان کی بات ہو رہی ہے۔ امراء اور اشرافیہ کے دستر خوان تو ویسے ہی وہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں، افطار کے وقت رنگ برنگے پکوانوں اور لوازمات سے بھرے پڑے نظر آتے تھے۔ ان پر نہ اس وقت کوئی فرق پڑا تھا نہ اب پڑ رہا ہے۔ اب تو ہوٹلوں، مہنگے ریستورانوں اور مالز پر افطار پارٹیوں کا وہ رش دیکھنے میں آتا ہے کہ لگتا ہے ایلیٹ کلاس کے سارے بوڑھے‘ جوان مرد عورت اور بچے صوم و صلواۃ کے پابند ہیں اور نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ روزہ کھول رہے ہیں۔ انہی لوگوں کو خوش کرنے اور اپنی پراڈکٹ کی مانگ بڑھانے کے لئے ہماری اشتہاری کمپنیوں کی مدد سے یہ ظالم کھانے پینے کے ایسے اشتہار ٹی وی چینلز پر چل رہے ہوتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان مصنوعی اشتہارات سے ملک کے کروڑوں غریب روزہ داروں کے دلوں کو جو تکلیف ہوتی ہے اس کا گناہ انہی لوگوں کے سر جائے گا جو غریبوں کا جی جلاتے ہیں۔ یہ اشتہار دیکھ دیکھ کر ان کے گھر والے بچے کیا سوچتے ہوں گے کہ ہمارے دستر خوان پر تو شربت اور سموسہ بھی نہیں تو امرا کے دستر خوان کیوں بھرے پڑے ہیں۔ ایسے دل جلانے والے اشتہارات پر اربوں روپے خرچ کرنے والے یہ ادارے اگر یہی رقم غریبوں میں رمضان پیکیج کے طور پر اپنی پراڈکٹ مفت فراہم کرنے پر خرچ کریں تو انہیں ہزار گنا زیادہ ثواب ہو گا اور ان کی اشیاء کی ویسے مشہوری بھی ہو گی۔ ویسے بھی رمضان میں نیکی کا صلہ ستر گنا زیادہ ملتا ہے۔ 
٭…٭…٭
سماعت سے قبل جج ملزم سے پوچھے ’’بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ حافظ حمد اﷲ
پی ڈی ایم کے ترجمان دراصل جے یو آئی کے رہنما ہیں۔ جہاں زبان و بیان میں خطیبانہ رنگ غالب آتا ہے۔ اقبال تو ویسے ہی ہمارے محراب و منبر کے وارثوں کے لئے معتبر حوالہ ہیں۔ سو اب ان کے شعر
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کو حافظ حمد اﷲ نے جس خوبصورتی کے ساتھ اپنے موضوع میں فٹ کیا ہے اس پر تو واقعی 
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی
کہنے کو جی چاہتا ہے ۔کہاں عامیانہ سیاسی بازی گری اور کہاں اقبال کا فلسفیانہ انداز بیاں۔ اسے خوبصورت ملاپ کہہ لیں یا امتزاج، بہرحال داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ اب تو حالات ہی ایسے ہو گئے ہیں کہ طاقتور بااثر افراد سب کو اپنے سے ہیچ گردانتے ہیں۔ حکم تھا حاضر ہوں جواب ملا باہر آ کر حاضری لگوا لیں ہائے کم بخت
کتنا شریں سوال تھا میرا
کتنا روکھا جواب پایا ہے
اب تو ڈر لگتا ہے کہ ہر ایک طاقتور ہجوم لے کر کہیں قانون کے اداروں کو دباؤ میں لانے کے لئے اس طرح آگے بڑھے کہ قانون کے رکھوالے بھی بے بس ہو جائیں تو پھر جو انارکی پھیلے گی اس کی شروعات رکھ دی گئی ہے۔ لگتا ہے اب اہلکار بصد احترام گھروں میں جا کر ملزمان کی حاضری رجسٹر پر دستخط کروائیں گے اور سماعتیں بھی انہیں کی مرضی سے ہو ںگی اور وہ بڑے فخر سے کہتے پھریں گے ہم تو قانون کا احترام کرتے ہیں۔ اگر یہی احترام ہے تو پھر ملکی نظام کا تو خدا ہی حافظ۔ اس طرح تو مافیاز اور نڈر ہو جائیں گے۔ ایسے حالات کا سدباب ضروری ہے۔ قانون اور عدالتیں سب سے مقدم ہیں ان کی حرمت اور طاقت برقرار رہنی چاہئے۔
     ٭…٭…٭
پی ایس ایل کا فائنل دوسری مرتبہ لاہور قلندر نے جیت لیا
ساری ٹینشنیں چھوڑ کر دکھ اور پریشانیاں بھلا کر گزشتہ روز قذافی سٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 8 کا آخری معرکہ یعنی فائنل سے پوری قوم لطف اندوز ہوئی۔ مسرت کے یہ چند لمحات بھی جس تیزی سے گزرے اس پر تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں
کتنی گریز پا ہیں مسرت کی ساعتیں
  اے دوست ان کے پاؤں میں زنجیر ڈال دے
مگر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ گزشتہ روز سارا دن معرکہ خیز رہا مگر یہ سیاسی میدان میں برپا تماشہ تھا۔ اصل کھیل تو لاہور میں ہمارے پرعزم کھلاڑیوں نے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جہاں ملتان سلطانز اور لاہور قلندرز کے درمیان سنسنی خیز لمحہ بہ لمحہ سانسیں اوپر نیچے کرنے والے اس میچ میں آخری گیند تک مقابلہ جاری رہا جو بالآخر لاہور قلندرز نے جیت لیا۔ پی ایس ایل کی آخری تقریب بھی شاندار رہی۔ آتش بازی اور موسیقی کا تڑکا گراؤنڈ میں بیٹھے 24 ہزار شائقین اور ٹی وی چینلز پر میچ دیکھنے والے لاکھوں نہیں بلاشبہ کروڑوں شائقین کو بھا گیا۔ لاہور قلندرز دوسری مرتبہ پی ایس ایل فائنل جیتنے والی پہلی ٹیم بن گئی ہے۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے شاندار میچ کھیلا۔ سچ کہیں تو ہماری ساری ٹیموں نے اول تا آخر سپر لیگ میں شاندار پرفارمنس دی۔ یہ سب ہمارے اپنے کھلاڑی ہیں ہماری اپنی ٹیمیں ہیں۔ شائقین نے سب کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ دنیا نے دیکھا کہ سیاسی ہنگامہ آرائی کے باوجود بحیثیت مجموعی پورا پاکستان پرسکون تھا۔ زندگی رواں دواں تھی۔ کھیلوں کے میدان‘ تجارتی مراکز کوچہ و بازار میں ہر طرف چہل پہل تھی، یہی زندہ قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ اب ہم پر تنقید کرنے والوں کے منہ بند ہوں گے اور ہمارے کھیل کے میدان اسی طرح آباد ہوں گے لوگ کھیلوں سے لطف اٹھائیں گے۔
  ٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...