جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو سب سے مشکل کام فوج کی تقسیم تھی کیونکہ یونٹس دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور ہر یونٹ کی نفری میں مختلف المذاہب لوگ موجود تھے۔ ان سب سے مشکل ترین کام جی ایچ کیو کی تقسیم تھی جو فوج کا’برین سنٹر‘ہوتا ہے۔جی ایچ کیو میں پوری فوج کے متعلق لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے حساب سے فائلیں ہوتی ہیں اور یہ تمام فائلیں بہت ہی اہم نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اگر ایک بھی فائل ادھر ادھر ہو جائے تو جی ایچ کیو کام نہیں کرسکتا۔ پھر جی ایچ کیو تمام جنگی ریکارڈ، یونٹوں کا اہم ریکارڈ، آفیسر ز کار یکارڈ،ٹریننگ پالیسیاں اور تمام پلاننگ کا ڈیٹا وغیرہ رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ ایک نئی فوج قائم کرنا اور اس کے لیے نیا جی ایچ کیو بنانا تو شاید اتنا مشکل نہ ہو لیکن 25لاکھ کی فوج کو تقسیم کرنا اور اس کے متعلق تمام ریکارڈ کی چھانٹی کرنا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر تھا۔اس کام کے لیے خصوصی عملے کی ضرورت تھی جو بد قسمتی سے مسلمانوں میں موجود ہی نہ تھا۔
مئی 1947 میں تقسیم ہند اور اس کے ساتھ ساتھ تقسیم افواج ہند کا فیصلہ تو ہو چکا تھا لیکن سب سے پیچیدہ مسئلہ یہ تھا کہ جی ایچ کیو کی تقسیم کیسے کی جائے اور جی ایچ کیو میں کام کرنے والی ہر برانچ کے لیے ٹیکنیکل لوگ کہاں سے لائے جائیں۔ بہر حال جون کے پہلے ہفتے انڈین فوج میں سے ڈھونڈ کر تیس مسلمان آفیسر ز کا تبادلہ جی ایچ کیو کیا گیا کہ وہ پاکستان کے حصے کا سامان علیحدہ کرائیں اور یہ تمام کے تمام جونیئر عہدہ کے لفٹین کپتان تھے جنھیں جی ایچ کیو میں کام کا کسی قسم کا تجربہ نہ تھا۔ پھر ان کے ساتھ کلریکل سٹاف بھی نہ تھا جو فائلوں کی چھانٹی کرتا۔ جی ایچ کیو سینئر آفیسرز کا ہیڈ کوارٹرز ہوتا ہے۔ وہاں تو کلرک بھی لفٹینوں اور کپتانوں سے بات نہیں کرتے چہ جائیکہ سینئر آفیسر ز۔ یہ قسمت کے مارے لفٹین کپتان سارادن مختلف دفتروں کے چکر لگاتے لیکن نہ تو ان کی کوئی رہنمائی کرتانہ کوئی تعاون کرتا کیونکہ سینئر آفیسر ز سارے انگریز تھے۔ میجر کرنل زیادہ تر ہندو تھے اور کلریکل سٹاف تمام کا تمام ہندو یا سکھ تھے۔ یہ جو نیئر آفیسر ز جس بھی برانچ میں جاتے ہندو اور سکھ نہ صرف عدم تعاون کا مظاہرہ کرتے بلکہ ان کا مذاق اڑاتے۔
ان حالات میں کسی سینئر مسلمان آفیسر کی تلاش شروع ہوئی جو حالات کو سنبھال سکے اور تو کوئی نہ ملالے دے کر میجرحق نواز کو تلاش کیا گیا جو ایک راجپوت رائفلز بٹالین میں سیکنڈ ان کمان تھا۔ یہ یونٹ اس وقت پونا میں تھی اور میجر حق نواز اپنی فیملی کے ساتھ وہاں مقیم تھا۔ اسے حکم دیا گیا کہ وہ فوری طور پر جی ایچ کیو میں جنرل ووڈ سے ملے جو کوارٹر ماسٹر جنرل تھا۔ دو پہر کو اسے حکم ملا اور یہ اپنی فیملی کو تنہا چھوڑ کر ساری رات سفر کر کے صبح سویرے جنرل ووڈ کے سامنے تھا۔ جنرل ووڈ نے فوری طور پر اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دیکر پاکستان کے لیے جی ایچ کیو کے سامان کی تقسیم اور پاکستان تک حفاظت سے لے جانے کا فرض سونپ دیا۔
لیفٹیننٹ کرنل حق نواز نے کمال ہوشیاری اور عقلمندی سے اپنا کام شروع کیا۔ اس نے سب سے پہلے جو بھی تھوڑا بہت مسلمان سٹاف جی ایچ کیو میں تھا اسے اکٹھا کیا۔ پھر اس نے جی ایچ کیو میں جو ذاتی جان پہچان والا کلریکل سٹاف تھا ان سے مدد کی درخواست کی۔ پھر اس نے دہلی میںیا دہلی کے قرب و جوار میں موجود یونٹوں سے مسلمان کلرکوں کو مستعار لیا۔ تیس جونیئر آفیسر ز جو مارے مارے پھر رہے تھے انھیں قابو کیا بلکہ سول سے بھی کچھ نہ کچھ متعلقہ اور ریٹائر ڈ لوگ لے آیا اور یوں ایک اچھی بھلی ٹیم بن گئی۔ کرنل حق نواز اور اس کی ٹیم نے دن رات ایک کر کے اگست کے پہلے ہفتے تک اپنے حصے کا کافی سارا سامان علیحدہ کر لیا۔ کرنل حق نواز نے دوستی ، زبردستی، منت سماجت اور خوشامد وغیرہ سب طریقے استعمال کیے تب جا کر اپنا سامان علیحدہ کر سکا۔ لیکن پھر بھی جو اہم قسم کی دستاویزات، پمفلٹ اور فائلیں وغیرہ تھیں سب ہند و آفیسرز اور سٹاف نے چھپالیں۔
اس دوران نوزائیدہ حکومت پاکستان کے لیے اہم ترین مسائل حکومت کے دفاتر اور جی ایچ کیو کے دفاتر کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد حکومتی دفاتر کے لیے کراچی کا انتخاب کیا گیا چونکہ وہاں کافی ساری خالی بیرکیں موجود تھیں۔ جی ایچ کیو کے لیے نظریں پنڈی پر پڑیں کیونکہ اس دور میں برٹش فوج کا شمالی کمانڈ ہیڈ کوارٹرز پنڈی میں تھا اور لیفٹیننٹ جنرل میسروی کمان کر رہے تھے، لہٰذا اس ہیڈ کوارٹرز کو جی ایچ کیو میں تبدیل کر دیا گیا اور لیفٹیننٹ جنرل فرینک میسروی کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاکستان فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا گیا۔
کرنل حق نواز نے سامان اکٹھا کرنے کے بعد جب حساب لگایا تو سارا سامان اور آدمیوں کو لے جانے کے لیے کم سے کم 13 مال گاڑیاں اور 13 فوجی کمپنیوں کی ضرورت تھی۔ اس دوران کرنل حق نواز نے مزیدیہ عقلمندی کی کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے فوجی جو د ہلی یا گردو نواح کی یونٹوں سے تقسیم ہوئے تھے بھی سب اکٹھے کر کے اپنے انڈر کمان کرلیے۔ ان میں زیادہ تر فوجی بلوچ رجمنٹ کے تھے، لہٰذا کرنل حق نواز نے سب کواکٹھا کر کے بلوچ رجمنٹ کھڑی کر دی۔ اسی طرح جو اکا دکا لاوارث مسلمان آفیسر تھے انھیں بھی اپنے ساتھ ملایا۔ یونٹ کو مسلح کیا اور آنے والے خطرات کے لیے تیار ہو گیا۔
سامان کی پہلی ٹرین 17 اگست کی شام 3 بجے تک بھر لی گئی۔ اس سامان والی ٹرین کے ساتھ کچھ خواتین اور بوڑھے مردوں کو بھی ڈالا گیا۔ بلوچ رجمنٹ کی ایک مسلح کمپنی بطور گارڈ ساتھ کی جنھیں حکم تھا کہ سامان چھوڑ کر ہر صورت واپس پہنچنا ہے۔ یہ ٹرین ٹھیک تین بجے دہلی سٹیشن سے روانہ ہوئی۔ یہ کرنل حق نواز کی دوراندیشی اور عقلمندی تھی کہ مسلح گارڈ ساتھ کر دیے۔ راستے میں بلوائیوں نے اس ٹرین کو آگ لگانے کی کوشش کی لیکن بلوچ گارڈز کی وجہ سے کچھ نہ کر سکے اور ٹرین خیریت سے منزل مقصود تک پہنچ گئی۔ دوسری ٹرین میں دفتری سامان وغیرہ تھا وہ بھی بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے ٹھیک پہنچا دی۔ تیسری ٹرین پر بٹھنڈہ کے ریلوے سٹیشن پر حملہ ہوا لیکن بلوچیوں نے کمال جرأ ت سے بلوائیوں کو بھگادیا اور ٹرین بخیریت لے آئے۔ چوتھی ٹرین کو بہادر گڑھ کے ریلوے سٹیشن پر آگ لگادی گئی جو بد قسمتی سے نہ بچائی جاسکی۔لیکن کرنل حق نواز کے کارنامے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔سچ کہتے ہیں جب بات حب الوطنی کی ہو تو ہمالیہ بھی چھوٹا نظر آتا ہے۔کرنل حق نواز نے تن تنہا اپنے وطن کی محبت میں وہ کام کر دکھایا جو بڑے بڑے سورما بھی شاید مل کر بھی نہ کر سکتے۔
کرنل حق نواز کا کارنامہ دیکھ کر علامہ اقبال کے اس شعر پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی