ایم وقار عباسی
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پندرہ سال قبل ادبی و ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کے لیئے بنائے گئے گندھارا سٹیزن کلب کو چئیرمین سی ڈی اے نور الامین مینگل کی کاوشوں سے کھول دیا گیا ہے گندھارا سٹیزن کلب اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری نے 2007 میں شہر میں ادبی و ثقافتی تقریبات کے انعقاد کے آئیڈیا کے تحت فاطمہ جناح پارک میں مکمل کیا تھا تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک ازخود نوٹس کے باعث اس کو دس سال تک سر بمہر رکھا گیا پانچ سال کلب اس کو سی ڈی اے کو استعمال کرنے کی اجازت تو ڈی گئی تاہم اس میں کوئی بھی سرگرمی نہیں کی گئی تھی موجودہ چئیرمین سی ڈی اے نورالامین مینگل کی کوشش کے باعث بالآخر سی ڈی اے نے پندرہ سال کے طویل عرصے کے بعد اس کلب میں پہلی ثقافتی اور ادبی تقریب کا کامیاب انعقاد کیا جس ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھ نے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی شرکا نے چئیرمین سی ڈی اے کی جانب سے شہر میں ادبی و ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کی کاوشوں کو سراہا ہے اور اسے شہر اقتدار میں ایک اچھی تبدیلی قرار دیا ہے۔
سی ڈی اے کی جانب سے گندھارا سٹیزن کلب میں تین روزہ لٹریری فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس میں چاروں صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان کی ثقافت پر مبنی رنگارنگ ثقافتی و روایتی ڈانس پرفارمنسز پیش کی گئیں فیسٹیول کا پہلا مرحلہ ثقافتی پروگراموں پر مبنی تھا جبکہ دوسرے مرحلے ( منزل بہ منزل) پروگرام کی سابق سیکرٹری و چئیرمین سی سی ڈی اے کامران لاشاری نے میزبانی کی اور اظہار خیا ل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کی خوبصورتی اس کا قدرتی حسن اور اس کا گردونواح تھا جو بدقسمتی سے اب کنکریٹ کے شہر میں تبدیل ہورہاہے انہوں نے کہا کہ گندھارا سٹیزن کلب کی عمارت 15سال پہلے بنائی عدالتی حکم پر بند ہوئی آج پندرہ سال بعد موجودہ چیئرمین سی ڈی اے نے اسے ادبی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا جو خوش آئندہے فیسٹیول کے پہلے روز کے پروگرام میں حامد میئر ، عاصمہ شیرازی ، ماہر ماحولیات ڈاکٹر وقار زکریا اور راجا چنگیز سلطان نے اسلام آباد کی ترقی ساکھ اور گورننس کے حوالے سے میزبان کیجانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دیئے۔ سابق چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ موجودہ چیئرمین و چیف کمشنر اسلام آباد نے سٹیزن کلب کو کھولنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئند ہے انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جو بھی سول سرونٹ کام نہیں کرنا چاہتا وہ سب سے اچھا افسرہوتاہے اصولی طور پر اچھے برے کا پیمانہ کار کردگی پر ہونا چاہیے سنیئر صحافی حامد میئر نے کہا کہ سی ڈی اے کی گورننس کوئی قابل ستائش نہیں ہے انہوں نے پینل کے سامنے اس بات کی نشاندہی کی کہ جب اسلام آباد کو دارلخلافہ بنایا جارہاتھا تو اس کا نام تجویز کرنے والے کو پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا عبدالرحمان نامی ایک سکول ٹیچر نے اسلام آباد کا نام تجویز کیا 1960سے لے کر 1990تک وہ اعلان کردہ پلاٹ کے حصول کے لیے ٹھوکریں کھا تا رہا جس کے بعد وہ فوت ہو گیا انہوں نے کہا کہ میں نے موجودہ چیئرمین سی ڈی اے نورالامین مینگل کو جب یہ بتا یا تو انہوں نے اس کا نوٹس لیا آج وزیر اعظم نے اس استاد کی فیملی کو پلاٹ کا الاٹمنٹ لیٹر دے دیا ہے اس کا کریڈٹ سی ڈی اے کو نہیں جاتا بلکہ اس کا کریڈٹ نورالامین مینگل کو جاتا ہے ۔
ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں پیدا ہوئیں اور اسلام آباد کو اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا انہوں نے کہا کہ انہیں شہرکو کنکریٹ میں بدلتے دیکھ کو دکھ ہو تا ہے پروگرام میں دیگر شرکاء نے بھی وفاقی دارلحکومت کے حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں تجاویز دیں اور مسائل کو اجاگر کیا۔میلے میں ادب سے پیار کرنے والے شہریوں کی بھی بھر پور شرکت دیکھنے میں آئی ہے۔پروگرام کے دوسرے روز ادب کی اہمیت اور پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف پروگرامز پیش کیے گئے جس میں پاکستانی زبانوں کے 75 سال پر مبنی پروگرام پیش کیا گیا۔یہ پروگرام پینل ڈسکشن پر شامل تھا جس میں ڈاکٹر عابد سیال، حفیظ خان، ڈاکٹر صغرا صدف، ڈاکٹر واحد بخش بزدار، اباسین یوسف زئی، ڈاکٹر محمد یوسف خشک اور نامور صحافی اور کالم نگار سلیم صافی نے شرکت کی۔پروگرام کی میزبانی کے فرائض ڈاکٹر عابد سیال نے انجام دیئے۔ میزبان کے سوال عالمی ثقافت اور مقامی ثقافت کو کس طرح متوازن طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ جس کے جواب میں حفیظ خان نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانیوں میں اپنی زبان،فنون، لباس،کلچر اور تمدن سے متعلق آگاہی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمیں اپنے علاقائی کلچر کے علاوہ قومی کلچر کی شکل میں آگے بڑھتے ہوئے اور دنیا کے جدید طریقوں کو اپناتے ہوئے ملک کو ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرنا ہو گا۔ڈاکٹر صغرا صدف نے کہا کہ زبان کے ختم ہونے سے کلچر ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مادری زبان کو تعلیم کا حصہ بنایا جائے جس سے رٹے کا کلچر ختم ہو گا اور ہمارا ملک ترقی کرے گا۔ براہوی زبان کی اہمیت اجاگرکرتے ہوئے ڈاکٹر واحد بخش بزدار نے کہا کہ براہوی 900 قبل مسیح کی زبان ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہاں پر رہنے والے کتنے عرصے سے یہاں پر بستے ہیں۔ اباسین یوسف زئی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں انہی قوموں نے ترقی کی ہے جن کی تعلیم انکی اپنی زبانوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کا راز اپنی ثقافت اور زبان کے ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان کے ساتھ جڑے رہیں اور دنیا کی زبانوں کو سمجھ کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ ڈاکٹر محمد یوسف خشک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 76 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ قومی تشخص کو جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں۔
نامور صحافی سلیم صافی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کامران لاشاری کے اسلام آباد سے جانے کے بعد اسلام آباد میں ادب، فن اور ثقافت لاوارث تصور کیے جا رہے تھے تاہم چیئرمین سی ڈی اے نو رالامین مینگل کے آنے کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ اد ب اور ثقافت کی ترویج کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا رہے ہیں جو کہ قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ماڈرن ہونیکا مطلب اپنے آپ کو یورپی ظاہر کرنا ہے جو کہ ماڈرن ہونیکا ایک غلط تصور ہے۔ جس کی وجہ سے ہم کلچر اور ادب سے دور ہو رہے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اپنی ثقافت کی بنیادی اکائیوں کے ساتھ دنیا کے جدید طریقوں کو اپناتے ہوئے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔
ادبی میلے کے دوسرے روز پروگرام گندھارا۔میلٹنگ پوٹ آف سولائزیشنز (Gandhara-Melting Pot of Civilizations) پیش کیا گیا۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر عبدلصمد، پروفیسر ڈاکٹر غنی الرحمان، کوریا کے سفیر Suh Sabgypo،اور عاصمہ راشد خان نے شرکت کی۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الصمد نے کہا کہ گندھارا تقریباً25000 سال سے مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے یہاں کی تہذیب میں برداشت کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گندھارا میں تقریباًچھ مذاہب کے قدیم و تاریخی مذہبی مقامات موجود ہیں۔اس لیے پاکستان میں مذہبی سیاحت کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ کوریا کے سفیر Suh Sabgypo نے کہا کہ پاکستان اور کوریا کے عوام کو ایک دوسرے کی تہذیب سمجھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ گندھار ا تہذیب پاکستان اور کوریا کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غنی الرحمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرزمین میں تہذیب کا تسلسل ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکو ل کے نصاب میں ہمیں کلچر کو بطور مضمون شامل کرنا چاہیے۔ اسلام آباد ادبی میلے کے دوسرے روز پروگرام نسائی ادب کے 75 سال پیش کیا گیا۔ پروگرام میں یاسمین حمید،ثروت محی الدین نے شرکت کی۔ پروگرام کے شرکائ نے ادب کے پھلنے پھولنے میں عورت کے کردار کو اجاگر کیا۔ شرکاء نے خواتین کو لکھنے میں پیش آنے والی مشکلات اور چیلنجز پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ شرکاء نے کہا کہ خواتین لکھاریوں کو بعض شعبوں میں مرد لکھاریوں پر برتری حاصل ہے کیونکہ انکے ادب میں ذاتی تجربات شامل ہوتے ہیں جو بحثیت مرد ہونے کے نہیں ہو سکتے۔ ادبی میلے کے دوسرے روز کل پاکستان مشاعرہ بھی پیش کیا گیا جس میں ملک کے نامور شعراء نے شرکت کی۔ مشاعرے میں افتخار عارف، انور شعور، خورشید رضوی، فواد حسن فواد،احسان اکبر، جلیل عالی،نصرت مسعود، وحید احمد، حسن عباس رضا، صغرا صدف، نصیر احمد عاصر، اختر رضا سلیمی، اختر عثمان، قمر رضا شہزاد، شاہین عباس، فرحت زاہد، حمیدہ شاہین اور ڈاکٹر توصیف تبسم اور محبوب ظفر سمیت دیگر شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔
اسلام آباد ادبی میلہ 2023 اتوار کے روز اختتام پذیر ہو گیا جس میں پروگرام ’’نوجوانوں کے لیے رول ماڈل‘‘،’’گلیات مری پر پینل ڈسکشن‘‘، ’’پاکستانی نثر کے 75 سال‘‘، ’’تھیٹر پرفارمنس‘‘ اور ’’مزاحیہ مشاعرہ‘‘ پیش کیے گئے تقریب کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین سی ڈی اے نورالامین مینگل تمام شرکائ کی تقریب میں بھرپور شرکت کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کی سی ڈی اے اسلام آبادمیں ادبی و ثقافتی پروگراموں کا انعقاد جاری رکھے گا۔
٭٭٭
شہر اقتدار تین روزہ لڑیری فیسٹول کی خوشبو سے معطر
Mar 20, 2023