عمران خان گرفتاری سے کیوں ڈرتے ہیں؟ 

Mar 20, 2023


قانون کی حکمرانی کا مطلب انصاف ہے، طاقتور اور کمزور کے لئے ایک ہی قانون ہونا چاہئے،پاکستان میں لوگوں کو قانون کی بالادستی کی سمجھ نہیں آ رہی، قانون کی بالادستی کا مطلب ہے کہ طاقتور کو قانون کے نیچے لانا۔ مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے عمران خان کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود عمران کا عدالت میں قانون کے سامنے پیش نہ ہونا اس ملک کے نظام عدل و انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں مریم نواز نے کہا کہ ’طاقتور کو قانون کے نیچے لاو¿ں گا‘ کی بڑھکیں لگانے والا اس ملک کی عدلیہ کو منہ چڑا رہا ہے، سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ جنگل میں بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے حکومت عوام کو بتائے کہ کونسی رکاوٹیں عمران خان کی گرفتاری میں حائل ہیں؟ایک بیان میں جاوید لطیف نے کہا کہ 8 ماہ میں جو چھپایا گیا ملکی مفاد میں وہ بتا دینا چاہیے۔ عمران خان کو اب بھی سہولت کاری دی جا رہی ہے تو موجودہ حکومت کو سچ بول دینا چاہیے، 6 گھنٹے میں عمران خان کی خواہش کے مطابق فیصلے آ رہے ہیں، نوازشریف کے کیسز کو 6، 6 سال ہو گئے سنا نہیں جا رہا۔
 واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی حفاظتی ضمانت کے لیے درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے انہیں پیش ہونے کے لیے دوبارہ مزید مہلت دے دی۔لاہور ہائی کورٹ میں ساڑھے 12 بجے دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ایسوسی ایٹ وکیل نے استدعا کی کہ ایڈووکیٹ اظہر صدیق ہدایات لے کر آ رہے ہیں، مزید کچھ وقت دے دیں۔سماعت تیسری مرتبہ 2 بجے دن شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل اظہر صدیق اور معالج ڈاکٹر فیصل سلطان عدالت میں پیش ہوئے۔عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ میں موجودہ درخواستِ ضمانت واپس لینا چاہتا ہوں۔جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ سماعت 4 بجے دوبارہ کرتے ہیں، اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ابھی ایک مسئلہ ہے، درخواست، حلف نامے اور آپ کے وکالت نامے پر عمران خان کے دستخط مختلف ہیں، دستخط کیسے مختلف ہو گئے؟ وکیل اظہر صدیق نے استدعا کی کہ مجھے وقت دیں، دیکھ لیتا ہوں۔یاد رہے کہ مدینہ کی ریاست دو بنیادی اصولوں پرقائم ہوئی تھی ، ایک قانون سب کیلئےبرابرہوگا اور دوسرا فلاحی ریاست ہوگی، کیونکہ پہلےقومیں اس لیے تباہ ہوئیں تھیں کہ امیر،غریب کیلئےالگ الگ قانون تھا، جن ممالک میں قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ جنگل کا قانون قائم ہوتا ہے وہ ممالک جلد یا بدیر تباہ ہوجاتے ہیں۔ مدینہ کی فلاحی ریاست میں غریب، بوڑھوں، یتیموں، خواتین کا خیال رکھا جاتا تھا، عدالتوں میں طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہے۔ اربوں کھربوں کی چوری کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا، غریب کو معمولی غلطی پر دھر لیا جاتا ہے۔ ملک میں احتساب نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی،لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میں آپریشن روکنے کا گزشتہ روز جاری کیا گیا حکم کل تک برقرار رہے گا۔ زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کے لیے فواد چوہدری کی درخواست پر سماعت ہوئی، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی کمرہ عدالت میں پیش ہوئے، وکیل فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا ہے جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ درخواست گزار کدھر ہیں 10 بجے کا ٹائم تھا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کی سنجیدگی ہے کہ درخواست گزار عدالت میں نہیں ہے، وکیل فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت میں فیصلہ محفوظ ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ سیکشن 76 پڑھیں یہ تو کوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔عدالت نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اس لیے ہے کہ کوئی قانون نہیں پڑھتا بس باتیں کرتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ ہر چیز کا حل قانون اور آئین میں موجود ہے، اس دروان اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے سیکشن 76 وارنٹس سے متعلق سیکشن پڑھ کر سنائے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ فریقین نے پورے سسٹم کو جام کیا ہوا ہے۔عدالت نے فواد چوہدری کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کبھی آپ اس عدالت میں آتے ہیں کبھی آپ اسلام آباد ہائی کورٹ جاتے ہیں، اظہر صدیق نے کہا کہ یہ سیاسی معاملہ بن چکا ہے، عدالت نے کہا کہ آپ دونوں پارٹیوں نے ہی بنایا ہے، بس قانون کو فالو کرنے کی ضرورت ہے، ساری قوم کو مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ عدالت نے فواد چوہدری سے استفسار کیا کہ سیکیورٹی کا کیا معاملہ ہے، فواد چوہدری نے کہا کہ سیکیورٹی کا مسئلہ بڑا سنجیدہ ہے، عمران خان اسلام آباد کی چار عدالتوں میں پیش ہوئے، پانچویں میں نہیں ہوئے، ایف ایٹ عدالت میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کی سو فیصد کنفرم معلومات تھیں۔عدالت نے کہا کہ ہمارے سسٹم میں سیکیورٹی لینے کا قانون موجود ہے، سیکیورٹی لینے کا ایک پراپر پروسیجر موجود ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے کہا کہ جب عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو سیکیورٹی دی، عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنے آپ کو سسٹم کے اندر لائیں، آپ کو پالیسی فراہم کرتے ہیں، اس کا نفاذ کریں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا گیا ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں نے وارنٹ کے معاملے کو ٹچ نہیں کیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹس پر عملدرآمد نہیں روکا۔اس کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔بعد ازاں زمان پارک آپریشن روکنے کی درخواست پر ا?ج کی سماعت کا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عدالت کا آپریشن روکنے کا حکم کل تک برقرار رہے گا، فریقین وکلا کی استدعا پر سماعت ملتوی کی جاتی ہے۔قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی لاہور میں زمان پارک رہائش گاہ کے مرکزی دروازے کے باہر پی ٹی آئی حامیوں نےکنٹینرز رکھ دیے جب کہ پولیس ٹیمیں سابق وزیر اعظم کے گھر سے پانچ منٹ کی مسافت پر واقع مال روڈ پر پہنچنا شروع ہو گئیں۔اسلام آباد پولیس کو جسے پنجاب پولیس اور رینجرز کی مدد حاصل رہی ، منگل کے روز پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کے لیے سیشن عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد رکاوٹ ڈالی گئی جب کہ سابق وزیر اعظم اپنی لاہور کی رہائش گاہ میں چھپے رہے۔عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری چار بار سماعت سے غیر حاضر رہنے کے باعث جاری کیے گئے تھے۔گزشتہ روز پولیس اور کارکنوں میں جھڑپوں کے بعد فورسز پیچھے ہٹ گئی تھیں اور کہا تھا کہ پاکستان سپر لیگ میچ کے باعث آپریشن روک دیا گیا، اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آج صبح 10 بجے تک کارروائی روکنے کا حکم دیا تھا۔
 عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کو روکنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کینال روڈ پر نکل آئے، کارکنان نے ہاتھوں میں ڈنڈے اور غلیل اٹھا رکھی تھیں، عمران خان کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے کی طرف جانے والے راستے کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا، کارکنان نے عمران خان کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے اینٹیں توڑ کر پتھر تیار کر لیے ہیں اور پتھروں کو سڑک کے مختلف مقامات پر رکھ دیا گیا جب کہ مال روڈ پر پولیس اہلکار پہنچ گئے۔سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیو فوٹیج میں مال روڈ اور کینال روڈ پر کھڑے کنٹینرز دیکھے گئے جب کہ کلپ میں پنجاب پولیس کے ایک درجن اہلکاروں کو بھی دیکھا گیا۔سلام ا?باد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست خارج کردی گئی ہے اور 18مارچ کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم برقرار رکھا گیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وارنٹ گرفتاری محض ایک انڈرٹیکنگ کی بنیاد پر خارج نہیں کیے جا سکتے۔واضح رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پیر کو توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل عدم حاضری پر پی ٹی آئی سربراہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔عدالت نے پولیس کو سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔عدالت کی جانب سے جاری کردہ ’وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد‘ کے لیے آپریشن منگل کی دوپہر کو شروع ہوا تھا جب پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔اسلام آباد کے ڈی آئی جی شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں پولیس نے مزاحمت کرنے والے پارٹی حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا، تاہم پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراو¿ کیا۔پولیس ٹیم آپریشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھی، بعد ازاں زخمی ہونے والے ڈی آئی جی بخاری نے واضح الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں اور آج انہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی رضاکارانہ گرفتاری کے امکان کی پیشکش کر کے آپریشن کے پہلے مرحلے سے بچ گئی تھی لیکن یہ ایک تاخیری حربہ تھا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے حامیوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔بعد ازاں پی ٹی آئی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور حکومت پنجاب نے کہا کہ کارروائی میں 58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔

مزیدخبریں