مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت مکمل طور پر فنگشنل ہو چکی ہے۔شہباز شریف کی 19 رکنی کا بینہ نے حلف اٹھایا ،ان کو محکمے تفویض کر دیئے گئے ہیں۔وزیر اپنے محکمے ابھی سنبھال ہی رہے تھے۔ محکمہ جاتی تعارف اور بریفنگز کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا کہ آئی ایم ایف کا وفد مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔وزارت خزانہ کا منصب محمد اورنگزیب کے حوالے کیا گیا ہے۔میری طرح بہت سے لوگوں نے ان کا نام پہلی بار سنا یہ پاکستان میں بھی موجود نہیں تھے، نیدرلینڈ میں ملازمت کرتے تھے، وہاں سے ملازمت چھوڑ کر قوم کی خدمت کا جذبہ انہیں پاکستان لے آیا۔ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نامور بینکار ہیں۔یہ ابھی اپنے ادارے کو دیکھ رہے تھے کہ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آن پہنچا جس کے ساتھ یہ پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ تھے۔مذاکرات کے دوران کئی معاملہ طے ہوئے ہوں گے۔ایک خبر یہ بھی تھی کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے پر نظر ثانی کا آئی ایم ایف کا کیا گیا مطالبہ ہمارے وفد نے مسترد کر دیا۔آئی ایم ایف کا وفد اپنا یہ مطالبہ منواتا ہے یا نہیں منواتا اگر ہمارے وفد کی طرف سے اپنے موقف پر سختی سے قائم رہا جاتا ہے تو کیا آئی ایم ایف پروگرام ہماری خواہش کے مطابق دے دے گا۔اسی ملاقات کے دوران آئی ایم ایف کی طرف سے پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی نج کاری کا پلان بھی مانگا گیا ہے۔قرض ہمیں چاہیے، پروگرام ہمیں چاہیے یہ سارا کچھ کیا ہماری مرضی پر ہوگا یا جس نے اربوں ڈالر کا قرض دینا ہے ان کی شرائط پر ہوگا۔نئے وزیر خزانہ اورنگزیب کو تیاری کا تھوڑا وقت ملتا تو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات زیادہ سود مند ہوتے۔ بہرحال آئی ایم ایف والے شاید اسی لیے آگئے کہ نئی حکومت اور خصوصی طور پر وزارت خزانہ میں پہلی بار قدم رکھنے والے وزیر کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکے۔تاہم یہ بھی حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ اورنگزیب تو نئے ہیں باقی ٹیم تو وزارت خزانہ کے رموز کو سمجھتی ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ ماضی میں ہونے والے مذاکرات کا حصہ بھی یہ لوگ رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہی وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وزراءکی طرف سے جی ایچ کیو کا دورہ کیا گیا۔اس دوران یادگار شہدا پر حاضری دی، پھول چڑھائے اور آرمی چیف کے ساتھ ملاقات ہوئی۔پاکستان جس طرح کی صورتحال سے گزر رہا ہے ایسے میں سارے اداروں اور سٹیک ہولڈرز کا ایک پیج پر ہونا لازمی ہے۔وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے جی ایچ کیو کے دورے کو اسی پوائنٹ آف ویو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انتخابات سے کافی عرصہ پہلے سے پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آرہا ہے اور اسی وجہ سے معاشی صورتحال بھی مثالی نہیں تھی۔امید لگ گئی تھی کہ انتخابات ہوں گے اس کے بعد ایک مضبوط حکومت معرض وجود میں آئے گی جو سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی مضبوطی کا باعث بھی بنے گی۔مختلف پارٹیوں پر مشتمل مخلوط حکومت بن گئی۔ان پارٹیوں کا اپنا اپنا منشور اور پروگرام ہے۔یہ پارٹیاں مشترکہ مقاصد کو لے کر آگے بڑھ سکتی ہیں۔یہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے وہ نظر نہیں آ رہا۔سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی تحریک انصاف انتخابی نتائج ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔وہ 180 سیٹیں حاصل کرنے کے دعوے کر رہی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں اس کے 92 ممبران موجود ہیں۔کئی دیگر پارٹیوں کی طرف سے بھی نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے یہ پارٹیاں بھی احتجاج کر رہی ہیں۔سیاسی استحکام کے لیے انتخابی نتائج پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔سیاسی استحکام کے لیے ایسا ہونا ناگزیر ہے۔جبکہ سیاسی استحکام اور معاشی استحکام لازم و ملزوم ہیں۔شہباز شریف حکومت کا یہ سب سے بڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح سے سیاسی استحکام لانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
ایک دو ماہ میں بجٹ بھی آنے والا ہے پہلے تو نگران حکومت جاتے جاتے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کر گئی۔ رواں سال جنوری میں نگران حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کو فروری میں گیس مزید مہنگی کرنے کے یقین دہانی کرائی گئی۔یہ بھی یقین دلایا گیا تھا کہ ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر کے ٹیئر ون میں آنے والے پرچون فروشوں پر جی ایس ٹی کی 15 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا۔ چینی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ روپے فی کلو گرام بڑھائی جا سکے گی، مشینری کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ را مٹیریل کی درآمد پر ایڈوانس ٹیکس میں 0.5 فیصد اضافہ کیا جا سکے گا اور سپلائر ز اور کنسٹرکشن پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کو بڑھایا جائے گا۔یہ یقین دہانیاں نگران حکومت کی طرف سے کرائی گئی تھی اور ان پر عمل بھی کیا جا رہا ہے۔
آئندہ کابجٹ ان حالات میں آ رہا ہے کہ عالمی سطح پر بھی کرونا کے باعث کساد بازاری سر اٹھائے ہوئے ہے۔ کرونا نے عالمی معیشت تباہ کر کے رکھ دی تھی جس کے اثرات بدستور موجود ہیں۔عالمی ابتلائیں پاکستان پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ایسے میں سوال تو اٹھتا ہے کہ بجٹ کیسا ہوگا۔ایک طرف آئی ایم ایف کی کڑی شرائط موجود ہیں دوسری طرف سیاسی استحکام کا فقدان ہے۔ایسے میں بجٹ ہوگا تو کیسا ہوگا کیا بجٹ پیش بھی کیا جا سکے گا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک ہونے والے مذاکرات کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ آخری جائزے کے لیے تمام اہم شرائط پوری کر دی گئی ہیں۔مذاکرات کی کامیابی پر جائزہ مشن ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی آخری قسط کے لیے سفارش کرے گا۔
گویا بجٹ میں خیر کی اتنی توقع نہیں ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت جن مالی اعانتوں کا اعلان کرتی ہے۔ان کا فائدہ ان غریب شہریوں کو ہونا چاہیے، جو ان اعانتوں کے مستحق ہیں۔ کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھاکہ جو لوگ پیسے کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔حکومت اس کے باوجود بھی عوام کو خاطرخواہ ریلیف دے سکتی ہے۔پاکستان میں ان دنوں مختلف اداروں اور افسران کو دی جانے والی سہولتیں زیر بحث ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں قائم اشرافیہ کے کلبوں، جن کی رکنیت کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، وہ کرائے کی مد میں سرکارکو انتہائی معمولی رقوم ادا کرتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور اقدامات کے نام پر دے دیتا ہے۔ایسی مراعات پر کٹ لگا کر عوام کو ریلیف کیوں نہیں دیا جا سکتا؟