وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ،نئی معاشی ٹیم اور درپیش چیلنجز

Mar 20, 2024

میاں مقصود احمد


زاویے.... میاں محمود
Myan.Mehmood @gmail.com

15 مارچ کو اسلام آباد میں یورپی یونین کے سفیر رینا کیونکا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ پاکستان د رست انداز سے معاشی بہتری کے ٹریک پر آنے کا ارادہ کر چکا ، انشا ءاللہ وہ اور ان کی ٹیم درپیش مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت مصروف نظر آئے گی۔ مہمان سفیر نے معاشی واقتصادی اہداف کی طرف بڑھتے قدم کی نہ صرف ستائش کی بلکہ برآمدی مسابقت‘ لائیو سٹاک اور ڈیری پروڈکشن سمیت مختلف صنعتی سیکٹر میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ان دنوں وفاقی وزیر خزانہ تعارفی ملاقاتوں میں مصروف ہیں چیف ایگزیکٹو آفیسر ( سی ای او)حبیب بینک محمد اورنگزیب( 2018-2024) کو عالمی مالیاتی حلقوں میں کسی تعارف کی احتیاج نہیں، ان کے اپنے کام سے لگن اور ٹارگٹ حاصل کرنے کی شہرت نے انہیں اس مقام رشک پر فائز کیا ہوا جہاں پہنچنے میں لمبی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ ہم اورنگزیب کی قیادت میں بہترین معاشی ٹیم کی تشکیل پر وزیراعظم میاں شہبازشریف کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نئے وزیرخزانہ صاف دل اور صاف گوئی میں ملکہ رکھتے ہیں یہی وہ خوبیاں ہیں جن پر سوار ہو کر کامرانی کیساتھ منزل کا دیدار کیا جاتا ہے۔ ہمیںامید بلکہ یقین ہے کہ محمد اورنگزیب‘ وزیر کامرس جام کمال اور وزیر صنعت قیصر شیخ پر مشتمل ٹیم اقتصادی ٹارگٹ حاصل کرنے کی طرف نتیجہ خیز پیش قدمی کرے گی ۔محمد اورنگزیب پاکستان میں پارلیمان کے رکن نہیں بلکہ وہ پاکستان کے چند بڑے بینکوں کے صدر رہے ہیں۔یہاں ماضی میں بھی بینکرز وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے 30 اپریل 2018 کو صدر اور چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا تھا۔اس سے پہلے وہ جے پی مورگن گلوبل کارپوریٹ بینک ایشیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اے بی این امرو بینک اور آر بی ایس میں اعلی انتظامی عہدوں پر رہنے کا 30 سالہ تجربہ بھی رکھتے ہیں۔وہ واحد پاکستانی ہیں جن کے پاس ڈبلیو ایس جے اور ڈاوجانز گروپ کے زیر نگرانی گلوبل سی او کونسل کی خصوصی رکنیت ہے۔محمد اورنگزیب نے بی ایس اور ایم بی اے کی تعلیم وارٹن سکول، یونیورسٹی آف پنسلوانیا امریکہ سے حاصل کی۔ وہ شاندار بینکاری کیرئیر کے حامل ہیں ۔ محمد اورنگزیب کو لانے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ معاشی مسئلے سے نمٹتے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کا قرضہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک بینکر بہتر آپشن ہو سکتا ہے۔ہمارے نزدیک محمد اورنگزیب کا انتخاب ایک اچھا فیصلہ لگتا ہے کیونکہ ان کا بین الاقوامی اور مقامی طور پر مالیات کو چلانے کا وسیع تجربہ ہے جو ملک کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہتر ہے۔یاد رہے ایک بینکر ہو یا ماہر معیشت وہ اکیلا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ پوری کابینہ ملکی معیشت سے متعلق فیصلے کرتی ہے۔ اگر وزیر خزانہ ایک فیصلہ لیتا ہے تو وزیر تجارت بھی معیشت سے متعلق ہی فیصلے لے رہا ہوتا ہے۔ 
 یہ درست ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ کو ایسے حالات میں منصب سنبھالنے کو ملا جب پاکستان اندرون اور بیرون ملک قرضوں کے پہاڑ تلے دبا ہوا ہے ان قرضوں کی مجموعی مالیت 130 ارب ڈالر بتائی جارہی ، دوسری طرف فروری 2024 میں افراط زر مہنگائی کی شرح 23.1 فیصد تک پہنچی جو بلند ترین شرح تصور کی جارہی ہے ۔صنعتوں کی نج کاری کامسئلہ جون کا توں ہے ریاست کی ملکیت 85 اداروں میں سے اکثر کئی سال سے خسارے کی بلند پرواز پر ہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ادارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہے جس کا سالانہ نقصان 170 ارب روپے ہیں۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں (10 ڈسکوز ) ہر برس قومی خزانے سے 450 ارب روپے کے اخراجات لئے ہوئے ہیں ۔ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے جیسے ادارے حکومت اور قوم پر بوجھ ہیں۔پنشن کا حجم قومی محصولات کے سر پر ہتھوڑا ہے۔ وفاقی سطح پر سول ملٹری پنشن 800 ارب روپے سے زائد ہے۔ صوبوں میں حجم 1000 ارب روپے ہے۔ گریڈ 17 سے اوپر کے افسران کی پنشن کا حجم نچلے عملے کی پنشن کا 5 سے 6 گنا ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ اور مفت پیٹرول اور بجلی آتی ہے۔ 220 ارب روپے مالیت کے ہزاروں لیٹر مفت پیٹرول والی 90 ہزار سے زائد لگڑری گاڑیاں دفتری اوقات میں نہیں بلکہ 24 گھنٹے بیوروکریسی کے اختیار میں ہیں۔ سول اور عدالتی بیوروکریسی 550 ارب روپے کی مفت بجلی کے مزے لے رہی ہے۔یہ ایک پاکستان ہے۔ چلیں دوسرے پاکستان کی طرف۔3 کروڑ بچے سکول نہیں بلکہ ہوٹلوں، ورکشاپوں، فیکٹریوں میں چند روپے کمانے کے لیے جا رہے ہیں کیونکہ والدین ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ 2کروڑ سے زیادہ نوجوان کام کے لیے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ملتا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ہم ناراض نوجوانوں کی ایک بڑی فوج تیار کر رہے ہیں جس کا استحصال مافیاز اور دہشت گرد آسانی سے کر سکتے ہیں
قوم وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے ہمیں امید ہے وہ بہترین پلاننگ اور کمنمٹٹ سے پاکستان کو معاشی بحران سے نکال کر دم لیں گے وہ اور انکی ٹیم خرافات ختم کرنے کے ساتھ ساتھ شفاف ٹیکس نظام سے بزنس کمیونٹی تاجر برادری اور صنعتی سیکٹر سے وابستہ انویسٹرز کا اعتماد پائے گی۔ ہم یہاں تجویز دیں گے کہ وزیر خزانہ براہ راست ٹیکس وصولی کا ایسا مثالی نظام وضع کریں جس سے ریڑھی والے سے شاپ ہولڈز اور بڑے دکاندار سب کے سب ڈائریکٹ ٹیکس ادائیگی کے سسٹم کا حصہ بن جائیں۔ ہر دکاندار 50 یا ایک لاکھ روپے ادا کرکے پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتاہے اور جو کاروباری یونٹ بڑے اور وسیع ہوں ان کا ٹیکس بتدریج بڑھا کرقومی خدمت کا چراغ روشن کیاجانا چاہیے۔ ہم یہاں یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ وزارت خزانہ ایف بی آر اور اسکے ذیلی اداروں میں اصلاحات کے ساتھ ایک ادارہ ”کنٹری بیویشن آف نیشنل اکنامی تھرو ڈائریکٹ ٹیکس “کی تشکیل کی جائے اور یہ کام زیادہ مشکل ضرور ہے ناممکم نہیں، وزارت خزانہ اس نئے ادارے کی ایک ایپ ( APP (بنا دے جہاںقومی شناختی کارڈ کی مدد سے ہر شہری قومی خزانہ میں حصہ بقدرجثہ ادائیگی کرسکے۔
 نئے وزیر خزانہ کو ٹیکس دہندگان کو عزت دینا بھی پڑے گی جب تک ہم چھوٹے تاجروں اور بزنس کمیونٹی کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے وہ قومی خدمت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ حکومت عزت کے گلاب دے گی تو ریونیو میں دوگنا اضافہ ہونے کا امکان ہے ، حکومت کو ایف بی آر کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو یہاں لانا پڑے گا۔ پرائیوٹ سیکٹر کا بورڈ بنائیں اور اسے مائیٹرنگ کی ذمہ داری دیں یقینا اس تعمیری سرگرمی سے ایف بی آر کی کارکردگی نکھر جائے گی ۔ وزیر خزانہ اورنگزیب مشکل ترین حالات میں بہترین کارکردگی دکھانے والی شخصیات میں شامل ہیں۔ قومی امید ہے کہ درپیش معاشی چیلنجز سے بہترین انداز میں نمٹیں گے اور قوم خوش حالی کی اس منزل کا نشان دیکھے گی جس کا انتظار اہل وطن 77 برس کررہے ہیں۔
ہر گاہ یہ فرشتوں کے لشکر ہوں ساتھ ساتھ
ہرگام پہ تمہاری حفاظت ہوا کرے۔


 

مزیدخبریں