مذہبی جماعتوں کی انتخابی شکست

Mar 20, 2024

قیوم نظامی

2024ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی شکست نے ان کے لیڈروں اور کارکنوں کو حیران اور پریشان کر دیا ہے- اس غیر متوقع شکست کے بعد مذہبی جماعتوں کے حامی غصے میں بھی ہیں اور شکست کے اسباب کا جائزہ بھی لے رہے ہیں- جن سیاسی جماعتوں کو سیاسی دھچکہ برداشت کرنا پڑا ان میں مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام، سراج الحق کی جماعت اسلامی اور مولانا سعد رضوی کی تحریک لبیک پاکستان شامل ہیں- جمیعت علمائے اسلام قومی اسمبلی کی صرف 4 نشستیں حاصل کر سکی ہے حالانکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان اس کے مضبوط سیاسی علاقے ہیں- مولانا فضل الرحمان نے ذمے داری قبول کرنے کی بجائے سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اب وہ پارلیمان کی بجائے میدانوں میں مقابلہ کریں گے- مولانا فضل الرحمان یہ بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں ان کو ہرا کر تحریک انصاف کو کیوں جتوایا گیا ہے- جماعت اسلامی قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں جیت سکی- حالانکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بڑے عزم اور جوش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور شکست کے بعد جمہوری اصولوں کے مطابق آبرومندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے شکست کی ذمے داری قبول کی اور اپنے جماعتی منصب سے استعفیٰ دے دیا جسے جماعت کی شوریٰ نے قبول نہ کیا- تحریک لبیک پاکستان کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوا ہے اور پنجاب میں تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری ہے-
 کراچی میں بھی اس نے قابل ذکر ووٹ حاصل کیے ہیں- انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا دائرہ اثرورسوخ محدود رہا ہے کیونکہ وہ جس مسلک سے تعلق رکھتی ہیں ان کا ووٹ بنک اسی مسلک تک محدود رہتا ہے- پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے سیاسی دائرہ بڑا وسیع ہوتا ہے اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ان کو ووٹ دیتے ہیں- پاکستان کی سیاست جھوٹ منافقت کرپشن موقع پرستی پر مبنی ہے- مذہبی جماعتیں اس نوعیت کی خراب سیاست کا مقابلہ نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کا ووٹ بنک مذہب سے جڑا ہوا ہے۔ اسلام کے آفاقی اصولوں کے دائرے کے اندر رہ کر ہی مذہبی جماعتیں سیاست کر سکتی ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے-
پاکستان کی سیاست میں بعض اوقات ایسی انتخابی سیاسی لہر اٹھتی ہے جو سب کو بہا کر لے جاتی ہے- جیسے 1970ء کے انتخابات میں بھٹو کی لہر اٹھی تھی- 2024ء کے انتخابات میں عمرانی لہر نے کام کر دکھایا ہے- اس عمرانی لہر کے سنجیدہ تجزیے کی ضرورت ہے- 2002ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کا اتحاد بنا کر انتخاب لڑا تھا اور خیبرپختونخوا میں حکومت تشکیل دی تھی- پاکستان کی بڑی مذہبی جماعتیں اگر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اگلے انتخابات کی تیاری کریں تو ان کو بہت بہتر انتخابی نتائج حاصل ہو سکتے ہیں- مذہبی جماعتیں اگر عوام کے معاشی مسائل کے حوالے سے انتخابی ایجنڈہ تشکیل دیں تو ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں- مذہبی جماعتوں کو سیاست کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور اصلاحی تحریک بھی شروع کرنی چاہیے تاکہ باشعور اور بیدار ووٹرز بہتر فیصلے کر سکیں- عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد بننے والی حکومت نے عمران خان کو ہیرو بنا دیا- انتخابات سے پہلے بلے کا انتخابی نشان چھیننے اور عمران خان کو سزائیں دینے کا فیصلہ ان کے سیاسی مخالفین کے لیے مہلک ثابت ہوا- مولانا فضل الرحمان اگر پی ڈی ایم حکومت کا حصہ نہ بنتے تو ان کو انتخابات میں افسوس ناک شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا -مذہبی جماعتوں کو جوش وخروش کے ساتھ متناسب نمائندگی پر انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے ووٹ ضائع نہ ہوں اور ووٹ کے تناسب سے ان کو اسمبلی کی نشستیں مل سکیں -
 2024ء کے انتخابات میں مبینہ کھلی دھاندلی کے بعد نوجوانوں کا انتخابی نظام پر اعتماد اٹھ جائے گا- تاریخ کے اس اہم موڑ پر مذہبی جماعتیں اگر ایک انقلابی ایجنڈے پر متفق ہو کر انتخاب کے بجائے انقلاب کی کال دیں تو نوجوان مایوس ہو کر دہشت گردوں کی جانب مائل ہونے کی بجائے انقلاب کی جانب آ سکتے ہیں- 2024ء کے انتخابات نے اگلے انتخاب کا دروازہ بند کر دیا ہے جبکہ تاریخ نے انقلاب کا دروازہ کھول دیا ہے- حقیقی آزادی عوامی انقلاب کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی - تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام، پاکستان عوامی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان اگر عوامی انقلابی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو سٹیٹس کو ٹوٹ سکتا ہے اور مافیاز کی بالادستی ختم کی جاسکتی ہے- انگریزوں کا سامراجی اور استحصالی نظام ختم کیا جا سکتا ہے- 
ادارہ جاتی اصلاحات کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں- پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے- مذہبی جماعتیں جمود اور تقلید کی بجائے انقلاب کا راستہ اختیار کریں تو وہ مزید پشیمانی سے بچ سکتی ہیں- عمران خان اور مذہبی رہنما علامہ اقبال کے نظریاتی اور فکری فتوے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں- انہوں نے کہا تھا جس ریاست میں جاگیر دارانہ سرمایہ دارانہ سنگد لانہ استحصالی نظام نافذ ہو اس نظام کو تبدیل کیے بغیر سماجی سیاسی اور معاشی برائیوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا چاہے کتنے ہی بحث و مباحثے کر لیے جائیں۔ تقریریں کی جائیں، کتابیں اور کالم لکھے جائیں، ٹاک شوز اور وی لاگ کیے جائیں یا وعظ اور تبلیغ کی جائے- سماج کو مثالی اور معیاری بنانے کے لیے ظالمانہ ریاستی نظام بدلنا بہت ضروری ہے-
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بناء سرمایہ داری ہے۔
تا تہہ وبالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام
جب تک ظالمانہ نظام تہہ وبالا نہ کر دیا جائے عقل تہذیب اور دین کی باتیں محض خام خیالی ہیں- جماعت اسلامی کو آل پاکستان ورکرز کنونشن بلانا چاہیے اور مختلف اضلاع کے کارکنوں کو اظہار خیال کا موقع دینا چاہیے تاکہ ان کی تجاویز کی روشنی میں نیا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے -

مزیدخبریں