غزہ میں قحط جیسی صورتحال مسلم حکمران خاموش تماشائی

غاصب اسرائیلی فوج کی غزہ کے رہائشی علاقوں پر بم باری جاری ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے الشفا ہسپتال پر پھر فائرنگ اور گولہ باری کی ہے جس سے 81 فلسطینی شہید اور زخمی ہو گئے جبکہ سرجیکل کمپلیکس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ادھر، نصائرات میں گھر پر بم باری سے 9 افراد شہید ہو گئے۔ غاصب فوج کے ترجمان نے الزام عائد کیا ہے کہ الشفا ہسپتال میں حماس کے سینئر کمانڈرز دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور وہ ہسپتال کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، جنیوا اور برلن میں ناجائز ریاست اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے گئے جن میں شرکاء نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ یونیسیف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فلسطینی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، ان میں رونے کی بھی طاقت نہیں۔ دنیا بھر میں فاقہ کشی کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ادارے آئی پی سی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ کے تمام شہری مئی تک قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ آئی پی سی کے مطابق، غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیریس نے غزہ میں قحط کے خطرے سے متعلق رپورٹ کو خطرناک فرد جرم قرار دیا ہے۔ انتونیو گوتیریس نے کہا کہ غزہ میں قحط کی صورتحال مکمل طور پر انسان کا پیداکردہ المیہ ہے، غزہ میں قحط کے بڑھتے خطرے کو روکا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال کے لیے ناجائز ریاست اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے امریکا اور برطانیہ تو ذمہ دار ہیں ہی لیکن اس معاملے میں مسلم حکمرانوں کو بھی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی۔ خاص طور پر خلیجی ممالک کے حکمران اس صورتحال کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں جنھوں نے امریکا کا دفاعی نظام اپنے ہاں نصب کرا کے اسرائیل کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور پھر کھوکھلے بیانات جاری کر کے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی بھی اس سلسلے میں بے اثر دکھائی دے رہی ہے۔ اگر اقوامِ متحدہ اور او آئی سی جیسے اداروں نے انسانی حقوق کی اس پامالی پر خاموش تماشائی ہی بنے رہنا ہے تو بہتر ہے کہ ان اداروں کو ختم کردیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن