دوسری جنگِ عظیم کا اختتام امریکہ کی وحشت و بربریت سے بھر پور کارروائی کا آغاز ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے سے ہو ا، جس سے چار لاکھ دس ہزار لوگ (HIBAKUSHA) اب تک ہلاک ہو چکے ہیں ۔جس جگہ مائیں آج بھی معذور بچے پیدا کر رہی ہیں ۔یہی واقعہ دنیا میں امریکی غلبہ کا باعث بنا ۔جس سے اس کی بدمعاشی مسلم ہوئی۔اس کے سامنے کسی کو بھی بولنے کا یارا نہ رہا۔اسی دور میں روس نے بھی ایٹمی طاقت بن کر اس امریکی غلبے کو چیلنج کیا تودنیا دو حصوں میں تقسیم ہوئی جسے معاشی نظام کی تقسیم کا نام دیا گیا۔کیپیٹلزم کو امریکہ نے لیڈ کیا اور کمیونزم کو روس نے۔یہی معاشی نظام کی جنگ ان گنت انسانوں کی موت اور بے شمار ملکوں کی تنزلی کا باعث بنی۔دوسری جنگ ِعظیم میں ویت نام جو فرانسیسی قبضے سے نکل کر جاپان کے قبضے میں چلا گیاتھا۔2ستمبر1945 ءکوجاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اس نے اپنی آزادی کا اعلان4ستمبر1945ءکو انہی الفاظ میں کیا ،جس میں امریکی آزادی کا اعلان کیا گیا تھایعنی تمام انسان برابر ہیں اور انسان کے خالق نے اس کے چند بنیادی حقوق متعین کئے ہیں جن میں زندہ رہنا ،آزاد رہنا اور اپنی پسند کے مطابق خوش رہنا شامل ہے) یہ آزادی کا اعلان امریکہ کو انتہائی ناپسند گزرا اور اس نے جنگِ عظیم کے اپنے اتحادی فرانس کو ویت نام پر دوبارہ قبضے کے لئے اکسایا۔جب یہ کام فرانس نہ کر سکا تو امریکہ نے ویت نام پر خود حملہ کر دیا۔اور جو مظالم یہاں کی عوام پر ڈھائے گئے وہ رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے ایک کلنک کا ٹیکہ رہیں گے۔اس جنگ میں جو تقریباًدودہائیوںسے زیادہ عرصہ تک ہوتی رہی 34لاکھ انسان مارے گئے جس کے لئے ایک کروڑ ٹن بم برسائے گئے ۔دو کروڑ 90لاکھ گیلن کینسر کا باعث بننے والا کیمیکل (ORANGE)سپرے کیا گیا۔4لاکھ ٹن نیپام بم برسائے گئے۔اتنا کچھ کرنے سے بھی جب امریکہ کی انسانی خون کی پیاس ختم نہ ہوئی تو اس نے 1963ءمیں ویت نام کے ہمسائے لاﺅس اور کمبوڈیا پر اس جرم کی پاداش میں کہ وہاں مفلوک الحال ویت نامی پناہ گزین ہیںاور امریکہ کے لئے خطرہ ہیںاس نے ان پر حملہ کر دیا۔لاﺅس کی جنگ جو 1973تک چلی میں 20لاکھ ٹن بم برسائے گئے۔5لاکھ 80ہزار فضائی بم مشن بھیجے گئے۔اور ان9سال کے عرصہ میں ہر آٹھویں منٹ پر ایک فضائی حملہ بنتا ہے اس جنگ میں دس لاکھ لاﺅس کے باشندے بے موت مارے گئے ۔اسی دوران کمبوڈیا کی جنگ جو 1964ءسے 1975ءتک رہی میں 30لاکھ ٹن بارود کمبوڈیا پر گرایا گیا ۔اس میں بھی دس لا کھ کمبوڈین مارے گئے۔اسی طرح جنوبی کوریا نے بھی6 ستمبر 1945ءمیں آزادی کا اعلان کیاتو اعلانِ آزادی کے دو دن بعد ہی 72ہزار امریکی فوجی جنوبی کوریا میں داخل ہوگئے اور وہاں سنج مین ری(syngman rhee) کی قیادت میں کٹھ پتلی حکومت قائم کروائی ۔جس میں ڈھائی سے پانچ لاکھ افراد قتل ہوئے ۔اسی دوران شمالی کوریا پر بھی حملہ کیا گیا۔اور امریکی B-29بمبار 800ٹن بارود روزانہ کوریا پر گراتے رہے۔جس کے علاوہ 6لاکھ ٹن نیپام بم بھی گرائے گئے۔جس سے 30لاکھ کورین اور 10لاکھ چینی باشندے ہلاک ہوئے۔امریکی خون آشامی یہیں پر بس نہیں ہوئی 1979میں افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف پاکستان کو کھڑا کیا ۔اور اسے ہر طرح کی امداد دے کر روس کے خلاف جنگ کروائی ۔اس میں گو براہِ راست امریکی فوجی شامل نہیں تھے۔لیکن اسلحہ ،گولہ بارود ،پیسہ اور Intelegance ذرائع استعمال ہونے سے امریکہ کی حیوانی جبلت کی تسکین ہو تی رہی ۔اور اس سے پاکستان کی قوم اور فوج کو تاریخ کے بد ترین بحرانوں میں مبتلا ہونا پڑا جس کے نتائج آج بھی بھگت رہے ہیں ۔دریں اثنا ء22ستمبر 1980ءکو عراق کو اکسا کر ایران پر حملہ کروایا اور اس 8سالہ جنگ جو کہ 20اگست 1988ءکو ختم ہوئی میں تقریباً دس لاکھ ایرانی مارے گئے یا زخمی ہوئے اور اسی طرح 3سے 5لاکھ عراقی بھی لقمہ اجل بن گئے۔اس وقت عراق کے کیمیکل ہتھیار (MUSTARD GASS) ایرانیوں اور کردوں کے خلاف استعمال ہونے کے باوجود امریکہ اور UNITED NATION کو نظر نہیں آئے۔کیونکہ اس وقت عراق کی حیثیت ایران کے مقابلے میں کم تر برائی کی سی تھی۔2اگست 1990ءکو کویت پر عراقی قبضے کے خلاف عراق پر جنگ مسلط کی گئی جو کہ 28 فروری1991ءتک رہی ۔اس دوران بھی لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوئے۔عراق پر دوسری جنگ مسلط ہونے تک معاشی پابندیوں کے ضمن میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ایک سے ڈیڑھ ملین معصوم عراقی دوائیوں اور خوراک کی عدم دستیابی کی بناءپر مر گئے ۔عراق پر دوسری جنگ مسلط ہونے سے اب تک تقریباً ساڑھے تیرہ لاکھ عراقی مارے جا چکے ہیں ۔اور افغانستان میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔یہ گزشتہ تقریباً 70سالوں کی امریکی وحشت و بربریت کی داستان ہے۔جو اس وقت بھی افغانستان اور عراق میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔اس کے اس فعل پر اب امریکی قوم بھی احتجاج پر اتر آئی ہے ۔جس سے بچنے کے لئے فیصل شہزاد جیسے ننگِ ناموس لوگ امریکہ کو ہمہ وقت میسر رہتے ہیں ۔جن کے ذریعے سے وہ اپنے سفاکانہ کھیل کو اپنی عوام میں جائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان پر موت کا حوا کھڑا رکھتے ہیں ۔جس سے ان کی عوام پھر شدید خطرات میں گھر کر اپنی حکومت کی حمایت شروع کر دیتی ہے ۔اور موجودہ واقعہ بھی اسی سلسے کی ایک کڑی ہی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لئے اس میں داخل نہیں ہوا۔اور یقینا اس کے اہداف کچھ اور بھی ہونگے ۔
آخر میں مارٹن لوتھر کنگ کا ایک معقو لہ لکھنا چاہوں گا۔
(America is in absolute psychiatric denial of its genocidal maniacal nature)