نوازخان میرانی ۔۔۔
ماضی میں انگریزوں نے ہمارے معزز چودھریوں‘ خانوں‘ ملکوں اور سرداروں کی پگڑیاں دربانوں‘ بیروں اور بڑے بڑے ہوٹلوں کے خدمت گزاروں اور مہمانوں کے لئے خواہ مہمان ”کمی کمین“ یا کوئی مرتد و لعین ہی کیوں نہ ہو دروازہ کھولنے اور بند کرنے والوں کو پہنا دیں اور ان معززین کی مونچھ کو نیچا کرنے کے لئے بڑی بڑی مونچھوں والوں کو گاڑیوں کا دروازہ کھولنے پر ملازم رکھ لیا۔ ساٹھ سال گزر گئے‘ ملک کاغذوں میں آزاد ہو گیا لیکن کسی حکومت کو توفیق ہوئی کہ اقتدار و پارلیمان میں بیٹھے اپنے وقار کو خاک میں ملنے سے بچاتے‘ چودھریوں نے میری طرح ”کلین شیو“ کرکے خودی و انا کو ماضی بعید کا فلسفہ بنا دیا۔ اپنی نام نہاد سرداری پر پیرانہ سالی کے باوجود زعم کرنے والے اس جانب توجہ دیں۔ اسی طرح علامہ اقبال کے پاکستان کے خواب‘ نظریے اور مسلمانان ہند کی مشترکہ مذہبی اقدار کو گہنانے کے لئے ”مُصلی“ کو ”مُسلی“ میں تبدیل کر دیا۔ مُصلی تو نماز‘ صلوٰة قائم کرنے والا پاکباز نیک اور مذہبی انسان ہوتا ہے جبکہ ”مُسلی“ زمینداروں کا خدمت گزار‘ صفائی کرنے والا اور عام طور پر غیر مذہبی شخص ہوتا ہے اور عموماً شربی‘ چرس‘ افیون اور دیگر منشیات کے رسیا جرائم پیشہ اور اخلاقی گراوٹوں کے شکار لوگ ہوتے ہیں اس طرح سے مُصلی کا اصل چہرہ اور تاثر زائل کر کے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی ذلیل و رسوا کرنے کے لئے منصوبہ بند کی گئی۔ برصغیر پر صدیوں حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہوں کی قدر و قیمت‘ اہمیت‘ عزت و وقار‘ رُعب اور ہمددری عوام میں کم کرنے کے لئے اور انہیں عام شہریوں اور ذات برادری سے کم تر ثابت کرنے کی خاطر انہیں ترکھان‘ لوہار جیسے دیہاڑی دار پیشوں سے منسوب کر کے انہیں ناموں سے مشہور کر دیا تاکہ دوبارہ تختِ ہندوستان حاصل کرنے کا نہ صرف جذبہ ماند پڑ جائے بلکہ ہندوستانی عوام ذہنی طور پر بطور حکمران قبول نہ کر سکیں۔ دراصل میرے خیال میں ہمارے عوام نئی صورتحال کی ہر قسم کی تبدیلیوں کو قبول کر کے لاشعور میں ہی بسا لیتے ہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان کو بطور بنگلہ دیش اکثریت نے قبول کر لیا‘ ماسوائے گنتی کے چند لوگوں کے کسی کے دل کی دھڑکن بند نہیں ہوئی۔ ہم نے بینظیر شہید‘ لیاقت علی خان‘ اکبر بگٹی‘ ایوب و یحیٰی خان اور مشرف کے دس سالہ آمرانہ دور کے یوٹرن اور جامعہ حفضہ کو بھی نہ صرف بھلا دیا بلکہ قبول کر لیا۔ ہماری اس بے حسی کی پالیسی کو ہمارے آقا بخوبی جانتے ہیں۔ اسی لئے تو انہوں نے میراثیوں کو بھانڈ اور جگت بازوں میں تبدیل کر دیا بلکہ اب تو ان بھانڈوں کے باقاعدہ ہمارے چینلز پر بھارت اور پاکستان میں مقابلے ہوتے ہیں حالانکہ خصوصی طور پر عرب ممالک میں میراثی‘ میراث کا تعین کرنے والے‘ انتہائی ذہین اور قوت حافظہ میں ناقابل یقین حد تک بلا کی تیزی رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے جسٹس صاحب بتا رہے تھے کہ عربوں میں حق‘ حقوق کا تعین کرنے اور میراث کے مقدمات میں یہ صاحب علم باقاعدہ ایک مستند اور ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پیش ہوتے ہیں حتیٰ کہ بقول ان کے میں نے اس بات کی ایک جھلک اور ان کی علمیت‘ قابلیت اور مثالی حافظے کا مظاہرہ ایک جگہ دیکھا جہاں ایک شخص نے میاں منظور احمد وٹو کا شجرہ نسب روانی سے اور تواتر سے آدم علیہ السلام تک حاضرین کو سُنایا تو سننے والے حیران رہ گئے۔ ہماری یہ تجویز ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان میں الیکشن کے دنوں میں فعال بنایا جائے تاکہ روز محشر سے پہلے ہی یہ امیدوار کو باپ کی بجائے‘ ماں کے نام اور شجرہ نسب سے بلائے۔ سنا ہے کہ اسمبلی ممبران نے کئی کئی شادیاں کر رکھی ہوتی ہیں ان کی قومی اور ملکی خود داری کو جگانے اور وطن کی خاطر کچھ کر گزرنے اپنی کھوئی ہوئی شناخت کی بحالی کے لئے کروڑوں عوام تو کچھ نہیں کر سکے‘ اب ان صاحب علم میراثیوں کے علم سے فائدہ اٹھایا جائے کیونکہ بُرے کو اس کے گھر پہنچانے کے لئے اس کے گھر کا پتہ ہونا ضروری ہوتا ہے جو روایتی دانشور نہیں جانتے۔
ماضی میں انگریزوں نے ہمارے معزز چودھریوں‘ خانوں‘ ملکوں اور سرداروں کی پگڑیاں دربانوں‘ بیروں اور بڑے بڑے ہوٹلوں کے خدمت گزاروں اور مہمانوں کے لئے خواہ مہمان ”کمی کمین“ یا کوئی مرتد و لعین ہی کیوں نہ ہو دروازہ کھولنے اور بند کرنے والوں کو پہنا دیں اور ان معززین کی مونچھ کو نیچا کرنے کے لئے بڑی بڑی مونچھوں والوں کو گاڑیوں کا دروازہ کھولنے پر ملازم رکھ لیا۔ ساٹھ سال گزر گئے‘ ملک کاغذوں میں آزاد ہو گیا لیکن کسی حکومت کو توفیق ہوئی کہ اقتدار و پارلیمان میں بیٹھے اپنے وقار کو خاک میں ملنے سے بچاتے‘ چودھریوں نے میری طرح ”کلین شیو“ کرکے خودی و انا کو ماضی بعید کا فلسفہ بنا دیا۔ اپنی نام نہاد سرداری پر پیرانہ سالی کے باوجود زعم کرنے والے اس جانب توجہ دیں۔ اسی طرح علامہ اقبال کے پاکستان کے خواب‘ نظریے اور مسلمانان ہند کی مشترکہ مذہبی اقدار کو گہنانے کے لئے ”مُصلی“ کو ”مُسلی“ میں تبدیل کر دیا۔ مُصلی تو نماز‘ صلوٰة قائم کرنے والا پاکباز نیک اور مذہبی انسان ہوتا ہے جبکہ ”مُسلی“ زمینداروں کا خدمت گزار‘ صفائی کرنے والا اور عام طور پر غیر مذہبی شخص ہوتا ہے اور عموماً شربی‘ چرس‘ افیون اور دیگر منشیات کے رسیا جرائم پیشہ اور اخلاقی گراوٹوں کے شکار لوگ ہوتے ہیں اس طرح سے مُصلی کا اصل چہرہ اور تاثر زائل کر کے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی ذلیل و رسوا کرنے کے لئے منصوبہ بند کی گئی۔ برصغیر پر صدیوں حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہوں کی قدر و قیمت‘ اہمیت‘ عزت و وقار‘ رُعب اور ہمددری عوام میں کم کرنے کے لئے اور انہیں عام شہریوں اور ذات برادری سے کم تر ثابت کرنے کی خاطر انہیں ترکھان‘ لوہار جیسے دیہاڑی دار پیشوں سے منسوب کر کے انہیں ناموں سے مشہور کر دیا تاکہ دوبارہ تختِ ہندوستان حاصل کرنے کا نہ صرف جذبہ ماند پڑ جائے بلکہ ہندوستانی عوام ذہنی طور پر بطور حکمران قبول نہ کر سکیں۔ دراصل میرے خیال میں ہمارے عوام نئی صورتحال کی ہر قسم کی تبدیلیوں کو قبول کر کے لاشعور میں ہی بسا لیتے ہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان کو بطور بنگلہ دیش اکثریت نے قبول کر لیا‘ ماسوائے گنتی کے چند لوگوں کے کسی کے دل کی دھڑکن بند نہیں ہوئی۔ ہم نے بینظیر شہید‘ لیاقت علی خان‘ اکبر بگٹی‘ ایوب و یحیٰی خان اور مشرف کے دس سالہ آمرانہ دور کے یوٹرن اور جامعہ حفضہ کو بھی نہ صرف بھلا دیا بلکہ قبول کر لیا۔ ہماری اس بے حسی کی پالیسی کو ہمارے آقا بخوبی جانتے ہیں۔ اسی لئے تو انہوں نے میراثیوں کو بھانڈ اور جگت بازوں میں تبدیل کر دیا بلکہ اب تو ان بھانڈوں کے باقاعدہ ہمارے چینلز پر بھارت اور پاکستان میں مقابلے ہوتے ہیں حالانکہ خصوصی طور پر عرب ممالک میں میراثی‘ میراث کا تعین کرنے والے‘ انتہائی ذہین اور قوت حافظہ میں ناقابل یقین حد تک بلا کی تیزی رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے جسٹس صاحب بتا رہے تھے کہ عربوں میں حق‘ حقوق کا تعین کرنے اور میراث کے مقدمات میں یہ صاحب علم باقاعدہ ایک مستند اور ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پیش ہوتے ہیں حتیٰ کہ بقول ان کے میں نے اس بات کی ایک جھلک اور ان کی علمیت‘ قابلیت اور مثالی حافظے کا مظاہرہ ایک جگہ دیکھا جہاں ایک شخص نے میاں منظور احمد وٹو کا شجرہ نسب روانی سے اور تواتر سے آدم علیہ السلام تک حاضرین کو سُنایا تو سننے والے حیران رہ گئے۔ ہماری یہ تجویز ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان میں الیکشن کے دنوں میں فعال بنایا جائے تاکہ روز محشر سے پہلے ہی یہ امیدوار کو باپ کی بجائے‘ ماں کے نام اور شجرہ نسب سے بلائے۔ سنا ہے کہ اسمبلی ممبران نے کئی کئی شادیاں کر رکھی ہوتی ہیں ان کی قومی اور ملکی خود داری کو جگانے اور وطن کی خاطر کچھ کر گزرنے اپنی کھوئی ہوئی شناخت کی بحالی کے لئے کروڑوں عوام تو کچھ نہیں کر سکے‘ اب ان صاحب علم میراثیوں کے علم سے فائدہ اٹھایا جائے کیونکہ بُرے کو اس کے گھر پہنچانے کے لئے اس کے گھر کا پتہ ہونا ضروری ہوتا ہے جو روایتی دانشور نہیں جانتے۔