آپریشن جیرونیمو پس منظر مقاصد اور مضمرات .... (آخری قسط)

May 20, 2011

سفیر یاؤ جنگ
بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر
امریکہ کے ہوم لینڈ سکیورٹی کے چیف بریلن (Brellen) کے بیان کےمطابق جنہوں نے وائٹ ہاﺅس میں صدر اوباما کے ساتھ موجود رہ کر یہ آپریشن دیکھا ”آپریشن میں دو مرحلوں پر شدید تناﺅ کی کیفیت تھی‘ مطلوبہ احاطے میں پہنچنے کے بعد بیس منٹ تک ہم صورتحال سے بے خبر تھے۔ پھر آپریشن قریب الختم تھا کہ پاکستان کے ایف 16 نے ٹیک آف کر لیا۔ اس موقع پر سیٹلائٹ کے ذریعے ہیلی کاپٹرز کے گرد‘ الیکٹرومیگنیٹک دھند پیدا کی گئی جس کے پار دیکھنا ایف 16 کیلئے ممکن نہ تھا۔ اس طرح ہمارے ہیلی کاپٹر بحفاظت واپس آ گئے“ بعد والی اطلاعات کےمطابق پاک افغان بارڈر کے قریب ہیلی کاپٹروں میں جیٹ فیول بھی بھرا گیا۔
اس سارے معاملے میں جہاں تک انٹیلی جنس کی کوتاہی یا غفلت کا معاملہ ہے اسکی وضاحت فوج کی جانب سے پارلیمنٹ میں کی جا چکی ہے‘ لیکن نوائے وقت نے اپنے ایڈیٹوریل میں ٹھیک سوال اٹھایا ہے کہ 9/11 کے حملے میں اپنے تمام تر وسائل کے باوجود امریکی انٹیلی جنس کیا کر رہی تھی کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے علاوہ پینٹاگون پر بھی حملہ ہو گیا؟ جان ایف کینڈی کیسے قتل ہو گئے؟ رونالڈ ریگن پر قاتلانہ حملہ کیسے ممکن ہوا اور بہت پہلے ابراہام لنکن کیسے قتل ہو گئے؟ انٹیلی جنس کے حصول میں ایسی کوتاہی بعید ازقیاس نہیں۔
ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پریس نے عموماً بہت ذمہ داری کا ثبوت دیا اور متوازن نقطہ نظر کا اظہار کیا لیکن سنسنی خیز اور گھٹیا شہرت کے خواہشمند بعض ٹی وی چینلز نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور اپنی فوج اور انٹیلی جنس کےخلاف دشمن والا طرز عمل اپنایا۔ مثبت تنقید کے بجائے انہوں نے طعن وتشنیع کے تیر برسائے اور رکیک حملے کئے۔ اس سلسلے میں بدترین مظاہرہ بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کیا گیا۔ میاں نواز شریف‘ جنرل مشرف کے اپنی حکومت کو برطرف کرنے کے اقدام کا انتقام تمام دفاعی مشینری سے لینے پر تلے ہوئے تھے اور انہیں یہ بھی احساس نہ تھا کہ وہ دشمن کے مقاصد پورے کرنے کیلئے آلہ کار بن رہے ہیں۔ دشمن کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ افواج اور عوام میں بداعتمادی کی خلیج حائل کر دی جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام سطحوں کے سیاستدان ٹی وی پروگراموں میں قومی اداروں کےخلاف آگ اگلتے رہے اور ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے۔ انکا طرز ِ عمل بقول غالب ع
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا ....
جیسا تھا۔ کیمرون منٹر کےساتھ میاں نواز شریف کی ملاقات بھی عوام کے علم میں ہے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے امریکہ کےخلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا نہ ہی انہوں نے امریکہ کےخلاف ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ امریکہ کے کہنے پر فوج کو رگید رہے ہیں کہ یہی موقع ہے فوج کو ہمیشہ کیلئے پیچھے لگا لو اور پھر امریکہ کو خوش رکھتے ہوئے من مانیاں کرتے رہو۔ عوام بھی بے وقوف نہیں افراد آتے جاتے رہتے ہیں ملک اور قوم کیلئے ادارے زیادہ اہم ہیں اگر ایک قومی قیادت کا دعویٰ رکھنے والے سیاستدان کی ذہنی سطح اتنی پست ہے تو اسے اگلے انتخابات میں عوام سے ووٹوں کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔
جہاں تک فوج کی سیاست میں دخل اندازی کا تعلق ہے تو کوئی بھی محب وطن شہری اسکی حمایت نہیں کرےگا لیکن تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔ جنرل ضیاءالحق نے کس کی سرپرستی کر کے اسے قومی سطح کا لیڈر بنایا؟ ڈکٹیٹرشپ سے سب سے زیادہ فائدہ کس نے اٹھایا؟ کراچی میں اس وقت کے کمانڈرانچیف جنرل آصف نواز کے گھر پر کس کی ملاقات ایم کیو ایم کی قیادت اور پیرپگاڑا جام صادق علی سے کروائی گئی؟ کن کن اشخاص کو اداروں کی جانب سے رقوم فراہم کی گئیں؟ یہ مقدمہ اب بھی عدالت کے پاس شنوائی کا منتظر ہے۔ اب فوج سیاسی معاملات سے لاتعلق ہو چکی ہے تو ازسرنو بعض لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے۔ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ....
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اس آپریشن کے مابعد اثرات اور مضمرات پاکستان کیلئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام‘ سیاستدان اور تمام ادارے متحد ہو کر یگانگت کا مظاہرہ کریں۔ اس موقع پر نفاق کا مظاہرہ دشمنوں کا کھیل کھیلنے کے مترادف ہے۔ کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اسکی سفارشات کی روشنی میں دفاعی کمزوریوں کو دور کیا جائے اور دفاع کیلئے کسی ایک ملک پر ہرگز انحصار نہ کیا جائے جو کہ عین ضرورت کے وقت سپلائی روک کر ہمیں نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ چین اور روس کی ٹیکنالوجی امریکہ جتنی اعلیٰ نہ سہی کم از کم اسکی سپلائی منقطع ہونے کا اندیشہ تو نہیں ہو گا۔ ہمارے پیش نظر بہرکیف دفاعی خودانحصاری کا مقصد ہونا چاہئے۔ ایک آخری بات ہمیں اپنے ایٹمی اثاثہ جات کو ہر قیمت پر بچانا ہے جس کیلئے باہمی اعتماد‘ اتفاق اور قومی یگانگت اشد ضروری ہے۔ آپریشن جیرونیمو کی ٹائمنگ پر غور کیجئے باقی معاملات کو آپ خودبخود سمجھ جائینگے اگر امریکہ کو گزشتہ ایک سال سے ایبٹ آباد میں اسامہ کی موجودگی کا علم تھا تو انہوں نے اپنے آپریشن کو 2 مئی 2011ءتک موخر کیوں کیا؟ اسکی آڑ میں اب پاکستان سے مزید کون سے مطالبات منوائے جائینگے؟ کیا اب بھی خود انحصاری اور ذہنی آزادی حاصل کرنے کا وقت نہیں آیا؟
مزیدخبریں