پاکستان اپنی قومی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ویسے تو ہماری قومی تاریخ، کئی ایسے تاریخی واقعات سے بھری پڑی ہے جن کا مطالعہ ہوشربا بھی ہے اور سبق آموز بھی لیکن ہماری تاریخ کا سبق ویسا ہی ہے جیسا انسانی تاریخ کا کہ ”کسی نے اس سے سبق نہیں سیکھا“۔ ہماری ہزار سالہ تاریخ نے ہمیں بتایا کہ ہنود، ہمارے دشمن ہیں۔ انہوں نے ہمیں کبھی بھی دوست تو درکنار برابر بھی نہیں سمجھا۔ قیام پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ مکتی باہنی کی تحریک کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا ڈالا۔ انڈیا گزرے دس سالوں سے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف امریکی سرپرستی میں مورچہ زن ہے اور ہم ہیں کہ امن کی آشا اور تجارتی معاہدوں کے ذریعے اس کے ساتھ دوستی کی راہیں استوار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے ذریعے ہندوستان کی تجارت کو افغانستان کے ساتھ فروغ دینے میں اس کی مدد کی ہے۔ 90ءمیں افغانستان میں سوویت افواج کی ہزیمت کے بعد اشتراکی ریاست کے خاتمے نے عالمی سیاست میں جو انقلابی تبدیلیاں کیں ہندوستانی قیادت نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ خطے میں ایرانی انقلاب نے امریکی مفادات پر بھی کاری ضرب لگائی اور امریکہ کی نئی سیاسی حکمت عملی میں بھارت نے مرکزی حیثیت اختیار کی۔ اسی پالیسی کے تحت افغانستان میں بھی بھارت امریکیوں کے ہمرکاب ہیں۔یہاں ایک بات پر غور و فکر کرنا ضروری ہے کہ کمیونزم یا اشتراکیت ہو یا سرمایہ دارانہ نظام ہائے معیشت، دونوں ہی انسانی فکر و عمل کے انتہا پرستانہ مظاہر ہیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد شروع ہونے والی گرم و سرد جنگ 90ءکی دہائی میں اختتام پذیر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی امریکہ ایک عالمی سپر طاقت کے طور پر عالمی منظر سیاست پر ابھرا۔ اب اسے کوئی روکنے ٹوکنے والی طاقت دنیا میں موجود نہیں تھی اس لئے اس نے آپریشن ڈیزرٹ سٹارم اور ڈیزرٹ شیلڈ کے ذریعے خلیج میں آتش و آہن کا جہنم دہکا دیا۔ دنیا کے نقشے کی تدوین نو کا اعلان ہوا۔ ایران، عراق، شام اور کوریا کو شیطان قرار دے کر ان کے خلاف ایک لایعنی ”ہولی وار“ شروع کر دی گئی۔ طاقت کے نشے میں چور امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی حواری برطانیہ نے مل جل کر دنیا کا نقشہ ترتیب دینا شروع کر دیا تھا حتیٰ کہ امریکہ میں 9/11 ہو گیا۔ دنیا کو امریکہ طاقت و برتری کا نشہ ہرن ہوتا نظر آیا۔ نصف صدی تک جاری رہنے والی ایک گرم و سرد جنگ کے دوران ان گنت مالی و انسانی وسائل ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے اور اپنے آپ کو بچانے کی منصوبہ بندیوں پر خرچ ہوتے رہے حتیٰ کہ دسمبر 1979ءمیں سوویت افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں اور 1989ءمیں یہاں سے ناکام لوٹتے ہی ان کا دیوالیہ نکل گیا پھر سوویت یونین 15 ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر عالمی منظر سے ایک سپر پاور کے طور پر ختم ہو گیا۔ اسی دوران امریکہ نے STAR WAR پروگرام مکمل کرکے اس بات کا اعلان کر دیا کہ امریکی فضائیں کسی بھی کسی بیرونی حملہ آور سے مکمل طور پر محفوظ ہو چکی ہیں۔ اب کسی بھی ملک سے امریکہ کی طرف داغا جانے والا میزائل امریکی ہواﺅں میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کر دیا جائے گا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ 9/11 کے بعد نہ تو کوئی دشمن قوم سامنے تھی اور نہ ہی کوئی ریاست جس کو تباہ کرکے امریکہ اپنی ذلت و رسوائی کا بدلہ لیتا۔ اسامہ بن لادن اور اس کی القاعدہ، ملا عمر اور اس کا تباہ حال افغانستان۔امریکی 2001ءمیں افغانستان پر حملہ آور ہوئے اور 2012 سے وہ یہاں سے نکلنے کے لئے ترلے لے رہے ہیں۔ ملا عمر بھی زندہ ہے اس کا افغانستان بھی قائم ہے۔ پوری افغان قوم نے امریکی اتحادیوں کا اسی طرح مردانہ وار مقابلہ کیا ہے جس طرح وہ اشتراکی اور برطانوی استعماری افواج کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے امریکیوں کو بھی اسی طرح ذلت و شکست سے ہمکنار کر دیا ہے جس طرح اشتراکیوں اور برطانیوں کو کیا تھا۔ 2014ءمیں افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا کے بعد جو پاور ویکیوم پیدا ہو گا اسے کون پر کرے گا؟ طالبان، حقیقی نیٹ ورک، حکمتیار، شمالی اتحاد، رشید و دوستم شوریٰ نظار اور دیگر وار لارڈز کیا کریں گے؟ افغان قوم کے مزاج شناس تجزیہ نگار اس وقت کا تصور کرکے بھی پریشان ہیں جب وہاں خانہ جنگی شروع ہو گی۔ امریکی معیشت گزرے کئی سالوں سے بیمار ہے۔ اسے بحالی کے کئی ہیوی انجکشن بھی دئیے جا چکے ہیں لیکن اس میں بہتری اور صحت یابی کے آثار پیدا نہیں ہو سکے۔ اوباما انتظامیہ دفاعی اخراجات میں کمی کر رہی ہے۔ غیر ممالک میں جاری بڑے بڑے ملٹری آپریشنز ختم کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ عالمی پسپائی کی راہ پر چل نکلا ہے۔ افغانستان میں اس کے ملٹری اور انسانی جانی نقصانات اس قدر زیادہ ہیں کہ اسے شاید اس بات کی بہت زیادہ پروا نہیں ہو گی کہ اس کے یہاں سے نکلنے کے بعد کیا ہو گا کیونکہ وہ اپنا عسکری بوجھ کم کر رہے ہیں تاکہ ان کی بگڑی معاشی صورتحال میں بہتری کا چارہ کیا جا سکے۔ایسے خطرناک پس منظر میں ویسی صورتحال دوبارہ پیدا ہونے کے قوی امکانات ہیں جو سوویت افواج کی افغانستان سے نکلنے کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ گلبدین حکمتیار، پروفیسر برہان الدین ربانی اور شمالی اتحاد کے احمد شاہ مسعود کے درمیان جنگ بازی نے اشتراکی افواج کے خلاف افغان عوام کو بہتر نظام سلطنت کے ذریعے اچھی زندگیاں گزارنے کے جو مواقع ملنے چاہئے تھے وہ انہیں نہیں مل سکے اور پھر خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کے بطن سے طالبان ابھرے جنہوں نے افغانستان کو تاریخی امن سے آراستہ کیا جسے امریکیوں نے 9/11 کے بعد آ کر تہ و بالا کر دیا۔ افغانستان اس وقت گولہ بارود کا ڈھیر ہی نہیں بلکہ تباہ حالی اور بربادی کا قبرستان بن چکا ہے۔ افغانستان کے چار سو تباہی و بربادی اور موت کا رقص جاری ہے کسی کی زندگی محفوظ نہیں۔ 42 ترقی یافتہ ممالک کی سپاہ قاہرہ میں بھی یہاں امن قائم نہیں کر سکی ہیں بلکہ ان کی موجودگی جنگ و جدل کی ضمانت اور انخلا خانہ جنگی کا اعلان ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت روکنے پر قدرت نہیں رکھتی لیکن ہمارا کیا بنے گا؟