ابھی تو میرے انگوٹھے کے ناخن کے تلے جامنی رنگ کی لکیر مٹی نہیں، مجھے یاد دلاتی رہتی ہے کہ میں نے ووٹ دیا تھا۔ مگر اب دکھ ہو رہا ہے کہ میں ووٹ دینے کیوں گئی تھی۔ مجھے یہ بھی دیکھنا تھا کہ اب ووٹروں کا کیا حال ہے۔ کتنے باشعور ہو چکے ہیں؟ مگر ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طالب علم ایک نئی دنیا بسا چکے ہیں۔ اپنے ذہن میں، ا بھی میں ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ دیکھ کر الیکشن ذہن سے نہ نکال سکی تھی کہ بڑے میاں صاحب کی بھاری کامیابی کی نویدمل گئی.... اس وقت ٹی وی پر خبر یہ چل رہی تھی کہ میاں صاحب کامیابی کی خوشی میں زنانہ حصے میں گئے اور اپنی والدہ کے قدم چھوئے انہیں بوسا دیا پھر نوافل پڑھے شکرانے کے اور والد کی قبر پر جا کر فاتحہ خوانی کی۔
اس کے بعد میاں صاحب نے تقریر بھی کر دی کہ میں اپنی حلف برداری کی تقریب میں من موہن جی کو بھی دعوت دونگا۔
اور میاں صاحب۔ بس یہاں آ کر جیسے میرا دماغ ماﺅف ہونے لگا۔
میاں صاحب! یہ ٹھیک کہ آپ کا گھر جاتی عمرہ انڈیا میں ہے وہاں آپ کی کامیابی کا سن کر مٹھائی بانٹی گئی۔ کیا خبر دوسری شام آپ کی بھارتی حویلی پر چراغاں بھی کیا گیا ہو مگر یہ ضروری تو نہیں کہ آپ پاکستانیوں کے مشورے کے بغیر اب اپنی من مانی پر اتر آئیں.... اور اپنے پہلے ہی بیان میں بھارت سے دوستی کا عندیہ دیدیں میاں صاحب اب آپ پاکستان کے سربراہ بننے جا رہے ہیں آپ کا ایسا بیان دینے سے قبل غیور پاکستانیوں سے مشورہ تو کر لینا چاہئے تھا۔
ابھی تو بھارتی جیل میں بیدردی سے قید کئے جانے والے قیدی کو اپنے بھارتی جاسوس کے پاکستانی جیل میں اپنی موت مرنے والے سربجیت کی موت کے بدلے پاکستانی کو قتل کر کے وہیں جیل کے باہر بے نام قبر میں دفن کرنے والے کا کفن بھی گیلا ہے گزشتہ دنوں ہی بے گناہ کشمیریوں کا خون بہایا گیا ہے اور پاکستانی جو اپنے کسی بھی جرم میں بھارت میں قید کئے جاتے ہیں ان کی واپسی پر اکثر کے متعلق پتہ لگتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر ماﺅف ہو چکے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ ا پنے ویزے سے کچھ زیادہ وہاں رک گئے۔ یا سرحدی علاقوں سے راستہ بھول کر بھارتی فوج کی قید میں چلے گئے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارتی جیل میں اپک پانچ سالہ پاکستانی بھی قید ہے.... اور آپ نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ میں اپنی حلف برداری کی تقریب میں من موہن صاحب جی کو آنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ وہ نہ آئے تو میں انہیں ملنے وہاں جاﺅنگا۔ میاں صاحب! آپ یہ سب کچھ کہہ کر ہم پاکستانیوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ کیا غیور پاکستانی یہ برداشت کر لیں گے؟ کیا ہماری فوج آپ کے یہ عمل قبول کر لے گی....؟
میاں صاحب ابھی تو ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ ہمارے سروں پر سے ایسی حکومت کا سایہ اٹھ گیا ہے بلکہ عوام کے ووٹوں نے اٹھا دیا ہے جو ملک میں کرپشن، بدعنوانیوں اور بے غیرتیوں کے مار دے رہی تھی۔ ابھی تو بیچارے عوام کھل کر اپنے ووٹ پر اظہار اطمینا ن بھی نہ کر پائے تھے کہ آپ ان عوام کو بھارت کی دوستی کی نوید سنانے لگے ہیں۔
میاں صاحب! آپ کو کیوں یقین ہے کہ اب بھارت پاکستان سے واقعی دوستی کرے گا....؟
اب وہ اپنے کسی فعل سے پاکستان کو دکھ نہیں دے گا۔
کیا بھارت نے آپ کی کامیابی کی نوید پا کر کشمیر کا راستہ پاکستانیوں پر کھول دیا ہے....؟
کیا بھارت نے کشمیر سے اپنی فوج واپس بلانے کا عندیہ دیدیا ہے؟
میں گزشتہ حکومت کی کارکردگی کا دیکھتی رہی ہوں کہ ہمارے کئی فن کار بھارت کو اپنا پسندیدہ ملک قرار دے کر اپنے فن کی داد پانے کو وہاں کی فلموں میں کام کرنے کوترجیح دینے لگے ہیں۔ وہاں سٹیج پر اپنی گائیکی کی دھوم مچانے لگے ہیں اور وہ اپنے فن پر بھارتی مہر لگوانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ کچھ ہی حال اب سیاست دانوں کا ہونے لگا ہے۔ وہ اپنی سیاسی کارکردگی پر بھارتی پسندیدگی کی مہر لگوانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ کیوں؟ وہ اپنے ملک سے یہاں کے باشندوں کی پسندیدگی کی مہر کیوں نہیں لگواتے....؟ یہ کیا احساس کمتری ان میں پیدا ہو گیا ہے۔
میاں صاحب! آپ کو خدا نے پاکستان کا سربراہ بننے کی توفیق دی ہے تو اپنے عوام کے لئے بہتر کام کریں۔ انہیں ان کا جائز حق دلانے کی کوشش کریں اور حق دیں صرف بیرون ملک اپنے ہی بنک اور کاروبار کو مدنظر نہ رکھیں تو یہ پاکستانی اپنا سب کچھ آپ کے سر پر سے نچھاور کرنے کو ہمیشہ تیار رہیں گے۔ انشاءاللہ
مگر آپ نے تو حلف اٹھانے سے قبل ہی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی بات شروع کر دی ہے۔ آپ تیل کی دھار تو دیکھ لیتے؟ آپ کے اس فیصلے پر پاکستانیوں میں حیرت اور فکر کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اکثر ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ میاں صاحب کو مبارک تو شاہ سعود نے بھی دی ہے اور کرزئی نے بھی، امریکہ نے اور دیگر ممالک نے بھی ہاں آپکے من موہن سنگھ کے بلاوے کے ذکر کے بعد راہول کا بھی بھارتی پیغام آیا ہے۔ مگر آپ صرف بھارت پر کیوں بچھ گئے ہیں۔
ابھی تو بھارت ہمارے دریاﺅں کے پانی کے رخ موڑنے جا رہا ہے اور پاکستان کو ذرخیز نہیں ریگستانی علاقہ بنانے پر تل گیا ہے بلکہ تیزی سے بنا رہا ہے.... وہ ہمارا مستقبل تباہ کر رہا ہے۔ آپ پھر بھی اسے اپنی پسندیدگی کا درجہ دینے پر تیار ہیں؟
آپ کیوں بھول رہے ہیں کہ چند برس قبل بھارت کی چالاکیوں نے ہمارے پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان اپنی چالاکی ہوشیاری سے ہمارے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کروا دیا تھا۔ جب اس نے اپنی مکتی باہنی وہاں بھیج کر غداروں سے رشتہ جوڑ کر پاکستان کا وہ حصہ علیحدہ کر کے ہمارے نوے ہزار فوجیوں کو مکتی باہنی سے قید کر لیا تھا۔ ہمارے کئی فوجی آخیر تک لڑائی لڑتے رہے اور کئی بھوٹان نیپال سے ہوتے ہوئے بھیس بدل کر پاکستان پہنچے تو بھارت نے نیپال اور بھوٹان کے راستوں پر بھی مکتی باہنی بٹھا دی تھی پھر ہمارے غیور پاکستانی فوجیوں کو قیدیوں کی صورت میں اپنے دور دور کے علاقوں میں لے گئے اور کئی جگہ بھرے شہروں سے پیدل لے کر گئے جہاں شہریوں نے انہیں جوتے دکھائے ان پر تھوکہ، انہیں جیلوں میں اَن دھلی کنکروں والی دالیں پکا پکا کر کھلائیں اور جیلوں میں کام کاج کےلئے آنے والے چھوٹے رینک کے لوگ انہیں ”سالے مسلے“ کہہ کر پکارتے رہے۔
میاں صاحب! آپ یہ سب وارداتیں کیوں بھول رہے ہیں....؟ کیوں بھولتے جا رہے ہیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ بھول چکے ہیں تو ہم بھی بھول جائیں۔ میاں صاحب! ہم انہیں پسندیدہ ملک کہنے کو تیار نہیں ہونگے.... میاں صاحب آپ بھی یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھائیے تاکہ ہمارا ملک کسی نئی اندرونی خلفشار میں مبتلا نہ ہو جائے۔
میاں صاحب! ہم سب گذشتہ حکومت کے خلاف تھے کہ ان کے پاس ہمارے لئے بجلی نہیں تھی۔ ہماری شامیں اور راتیں اندھیری تھیں ہمارے بچے موم بتیوں کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ گرمی میں رات کو مچھر کاٹتے اور ننھے بچے اپنی نیند نہیں پوری کر پاتے اور رونے لگتے ہیں۔ یہاں رینٹل پاور والے صاحب آ گئے اور جانے کتنے کروڑ روپے خرچ کر ڈالے ان کے گھر کی خواتین بھارت ا ور انگلستان جا کر لاکھوں کروڑوں کی شاپنگ کرتی رہیں مگر بجلی جانے کدھر چلی گئی۔ ہمارے بڑے لوگوں نے ولایت کو اپنا دوسرا گھر بنائے رکھا۔ اپنے بنک، اپنے کاروبار اپنے بچوں کی پڑھائی سب باہر کے ملکوں میں رہا وہ سمجھتے رہے ہم باہر کے یہاں حکمران بن کر آئے ہیں۔ ہم نے یہ خطہ آزاد کیا ہے۔ اسلئے یہاں پاکستان ان سے بیزار ہو گئے ان کے پاس نہ توپ نہ گولی، بس ووٹ تھا۔ انہوں نے اپنا ووٹ انہیں نہیں دیا۔ عوام کا انتقام بہت ظالم رہا۔ انہوں نے اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں رسوا کر کے رکھ دیا۔
آپ ان کا حشر دیکھ چکے ہیں۔ میاں جی! اب قوم بیدار ہوچکی ہے وہ حکمرانوں کے دھوکے میں نہیں آنے کے۔ وہ ہر آنے والے حکمران کو اب اپنے سانچے میں ڈھال کر دیکھیں گے۔
میاں صاحب! ہمارے ہاں گندم کی کٹائی جا رہی ہے۔ اس وقت ڈیزل کی کمی اور مہنگائی چھوٹے کسان اپنے پرانے ہل، درانتی، چھاج نکال لائے ہیں۔ گہوں کی گاہی بھی ہو رہی ہے اور خواتین چھاجوں میں بھر بھر کر گرا رہی ہیں۔ بھوسہ علیحدہ ہو رہا ہے۔ ہم پرانے دور میں لوٹ آئے ہیں۔
میاں صاحب! آپ نے ووٹروں کی دی ہوئی کامیابی کے بعد سب کے پہلے اپنی ماں کے قدم چومے ہیں۔ میں چاہتی ہوں۔ آپ ہماری ماں کا بھی احترام کریں ہماری زخم زخم ماں ہماری پاکستانی دھرتی ماں نے گود میں ہمیں سمیٹا ہوا ہے آپ ہماری ماں کا بھی احترام کریں ۔ ہمارے لئے پاکستانی غیور عوام کےلئے تو بڑی مہربانی ہو گی ہمیں یہ ماں.... ہمیں گود میں سمیٹنے والی ماں کی مٹی کا ہر ذرہ بہت عزیز ہے۔ مجھے بھارتی جنگی قیدی وہ ماں کبھی نہیں بھولتی جب ہم جنگی قیدیوں کی واپسی پر واہگہ کے قریب کھڑے استقبال کر رہے تھے تو ایک ماں سجدے میں گری اور پھر پاکستانی مٹی کی چٹکی اپنے گود کے بچے کو چٹائی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے....
میں آپ کے گوش گزار یہ بھی کرنا چاہتی ہوں کہ آپ بڑے لوگ بھارت جائیں تو بڑے لوگوں سے ملتے ہیں ( مگر ان کے بڑے لوگ پاکستان سے دل میں کینہ رکھتے ہیں) میں اک بار دلی گئی تھی میں بازار میں تنہا گئی تھی اور مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر گئی تھی خرید وفروخت کے بہانے ان کے حالات پر بات چیت کی تھی تو ایک بیچارے نے مجھے کہا تھا۔ آپ کے وفد جب یہاں آتے ہیں تو یہاں سے بے شمار جاسوس پھیلا دیئے جاتے ہیں کہ پاکستانی یہاں آ کر کیا صرف مسلمانوں سے چیزیں خریدتے ہیں؟ اور کیا بات چیت کرتے ہیں۔ ابھی مجھے بھی پوچھا جائے گا۔ وہ کیا خریدنے آئی تھی؟ آپ زیادہ دیر یہاں نہ کھڑی ہوں۔ میں وہاں سے چل کر ہندو کی دکان پر آئی دو چار جگہ چیزیں دیکھیں پھر واپس وہاں آئی جو ننھی منی چیزیں میں وہاں دیکھ رہی تھی۔ واپس آ کر اٹھائیں۔ پیسے دیئے تو دیکھا انہیں ایک ڈبیا زیادہ تھی۔ میں نے پیسے دینے چاہے تو اس نے کہا میں غریب ضرور ہوں مگر اپنی بہن کو تحفہ دے رہا ہوں۔ میں نے جلدی میں اپنی دو تین چیزیں واپس رکھ دیں اور تحفہ اٹھا کر واپس آ گئی۔