طاہر اُلقادری کا۔”انقلاب“۔ پھِر ملتوی!

طاہر اُلقادری کا۔”انقلاب“۔ پھِر ملتوی!

2جنوری۔ 1965 ءکے، صدارتی انتخاب سے پہلے، حزبِ اختلاف کی مشترکہ امیدوار ۔مادرِ ملّت ،محترمہ فاطمہ جناحؒ نے 7دسمبر 1964ءمیں، باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں، ایک بہت بڑے جلسہءعام سے خِطاب کِیا ۔ سرکلر روڈ اور دوسرے ملحقہ علاقوں میں بھی لوگ موجود تھے ، جو مادرِ ملّت کو، دیکھنے کی پوزیشن میں بھی، نہیں تھے ۔” نوائے وقت“ ۔ نے مادرِ ملّت کے جلسے میں شُرکاءکی تعداد 5لاکھ لِکھّی۔اُس پر تبصرہ کرتے ہُوئے ۔” کنونشن مسلم لیگ“۔ کے نام سے جماعت بنا کر، اُس کی صدارت ،صدر ایوب کو پیش کرنے والے، پُرانے مسلم لیگی لیڈر، چودھری خلیق اُلزمان نے کہا تھا کہ ۔ ”کیا ہُوا اگر محترمہ فاطمہ جناحؒ کے جلسے میں 5لاکھ لوگ شریک تھے؟۔ لاہور کی آبادی۔ 30لاکھ ہے ۔باقی 25 لاکھ لو گ تو جلسے میں نہیں آئے۔وہ تو، صدر ایوب خان کے ساتھ ہیں“۔
علّامہ طاہر اُلقادری کی عُمر اُس وقت 12سال اور 10 ماہ تھی۔ جھنگ کے کسی مدرسے، یا سکول میں پڑھتے ہوں گے ،لیکن انہوں نے11مئی 2013ءکو ہونے والے، عام انتخابات کے بعد ، چودھری خلیق اُلزمان(مرحوم) سے رُوحانی طور پر ،کسبِ فیض حاصل کرتے ہُوئے۔ 16مئی کو لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ۔” 50فی صد ووٹروں نے میری اپیل پر، انتخابات کا بائیکاٹ کِیا “۔ اِس لحاظ سے علّامہ القادری ۔چودھری خلیق اُلزمان سے بھی بازی لے گئے۔ چودھری صاحب نے یہ کریڈٹ نہیں لِیا تھا کہ، اُن کی اپیل پر، لاہور کے 25لاکھ لوگوں نے،محترمہ فاطمہ جناحؒ کے جلسے کا بائیکاٹ کر دِیا تھا۔
عالمی مُبصّرین اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ۔” 11مئی کے انتخابات میں 60فی صد سے زیادہ، ووٹروں نے ووٹ ڈالے “۔ یہ60فیصد سے زیادہ ووٹرز 61سے 69فی صد ہو سکتے ہیں ،لیکن علّامہ القادری کو صِرف، 50فی صد دکھائی دئیے۔ شاید باقی ووٹروں نے۔ ” سلیمانی ٹوپی “ پہن رکھی ہو گی۔ علّامہ صاحب نے، 13سے 17جنوری2013ءتک اپنی قیادت میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے والے لوگوں کی تعداد۔40لاکھ بیان کی تھی ،لیکن پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے، علّامہ القادری صاحب کے اس دعوے کو درُست تسلیم نہیں کِیاتھا ۔دروغ برگردنِ یکے از فرزندانِ جھنگ کہ ۔” علّامہ القادری د ورانِ تعلیم ہی حساب کے مضمون میں کمزور تھے“۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ،الیکشن کمِشن کے ترجمان کی طرف سے وضاحت ہو جاتی کہ۔” علّامہ طاہر اُلقادری کی اپیل پر ہی ووٹروں نے، 11مئی کو انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا،انہیں کوئی ذاتی مصروفیت نہیں تھی“ ۔لیکن الیکشن کمِشن نے تو ،القادری صاحب کو اپنا مستقل مخالف ہی سمجھ لِیا ہے۔ الیکشن کمِشن کے مطابق، پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد۔ 8کروڑ 61لاکھ سے زیادہ ہے ۔اگر اُن میں سے (بقول القادری صاحب) فرض کر لِیا جائے کہ 4کروڑ 30لاکھ 50ہزار سے زیادہ ووٹروں نے، علّامہ القادری کے کہنے پر عام انتخابات کا بائیکاٹ کِیا تو وہ 11مئی کو علّامہ صاحب اور اُن کی پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے دی جانے والی ۔” دھرنی“ ۔میں شریک کیوں نہیں ہُوئے؟۔
18مئی کو ،لاہور ہی میں ،علّامہ القادری نے، پھِر پریس سے خطاب کِیا اور اعلان کِیا کہ۔” مَیں انقلاب لانے کے لئے ایک کروڑ لوگوں کو اکٹھا کروںگا“۔ کب اور کیسے؟۔ یہ راز علّامہ صاحب نے میڈیا کو نہیں بتایا ۔اگر موصوف کا دعویٰ درست ہے کہ ۔ 11مئی کے انتخابات میں، اُن کی اپیل پر،4کروڑ 30لاکھ اور 50ہزار سے زیادہ ووٹروں نے،ووٹ نہیں ڈالے “۔ تو کیا علّامہ صاحب اُن میں سے، ایک کروڑ لوگوں کو بھی ۔”انقلابی“۔ نہیں بناسکتے؟۔ 23 دسمبر2012ءکو ،طاہر اُلقادری صاحب نے، مینار ِ پاکستان کے زیرِسایہ جلسہءعام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ۔” میرے جلسہءعام میں لوگ اپنے سکوٹر/موٹر سائیکل، کاریں، گھر اور خواتین اپنا زیور فروخت کر کے، انقلاب لانے کے لئے جمع ہُوئے ہیں“۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی قیادت کرنے سے قبل 12جنوری کو علّامہ طاہر اُلقادری نے کہا تھا کہ ۔” میری قیادت میں لانگ مارچ۔عوامی جمہوریہ چین کے قائد ماﺅزے تُنگ کے لانگ مارچ سے بڑ اہو گا “۔ اور اُس کے ساتھ ہی کہا کہ۔”مَیں حضرت امام حُسینؓ کاغلام ہوں اور حُسینی مِشن پر نِکلا ہوں ۔مَیں نے اپنے اہلِ خانہ کو وصیت کر دی ہے کہ میرے قتل کے بعد بھی میرے مِشن کو جاری رکھا جائے“۔
دراصل علّامہ القادری کو عِلم تھا کہ لانگ مارچ کے دوران یا اختتام تک اُن کا بال بھی بانکا نہیں ہو گا ۔اِس لئے نہیں کہ۔طالبان ۔علّامہ صاحب کا بہت احترام کرتے ہیں بلکہ اِس لئے کہ،1993 ءمیںعلّامہ صاحب نے اپنا یہ بیان اخبارات میں چھپوایا تھا کہ ۔” مجھے خواب میں سرکارِ دو عالم نے بشارت دی تھی کہ، میری عُمر بھی آپ کی عُمر کے مطابق 63سال ہوگی“۔ علّامہ القادری کی تاریخ ِپیدائش 11فروری 1951ءہے ۔اگر موصوف کے بیان کو سچ تسلیم کر لِیا جائے تو ، 11فروری2014ءکو، اُن کی عُمر 63سال ہوجائے گی ۔گویا علّامہ صاحب 8ماہ اور20دِن تک بقیدِ حیات رہیں گے ۔علّامہ صاحب کو اِسی مختصر مدّت میں۔” انقلاب “۔لانا ہوگا۔ علّامہ صاحب نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ ۔کیا انہیں، سرکارِ دو عالم نے اِس طرح کی بھی کوئی بشارت دی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ۔” انقلاب“۔ لا سکیں گے یا نہیں ؟۔تو۔ ”اگرپِدر نتواند،پِسر تمام کُند “۔ کی ضرب اُلمثل کے مطابق اُن کے دو بیٹوں۔( جنہیں وہ ہر پریس کانفرنس میں اپنے دائیں اور بائیں بٹھائے رکھتے ہیں )۔ میں سے کون سا بیٹا یہ فریضہ انجام دے گا؟۔
صُورت یہ ہے کہ، علّامہ صاحب کے عقیدت مند تو ،اُسی وقت سے ۔” انقلاب“۔ کے منتظر ہیں ،جب طاہر اُلقادی صاحب نے، 1999ءمیں ۔” قائدِانقلاب“۔ کا لقب اختیار کر کے، اپنے ایک دوست سے ۔” قائدِعوام سے قائدِ انقلاب تک“۔ کے عنوان سے کتاب لِکھوائی تھی۔ ،لیکن ۔” انقلاب“ لائے بغیر۔ علّامہ صاحب نے، اپنے اہلِ خانہ سمیت کینیڈین شہریت اختیار کر لی ۔19دسمبر 2012ءکو علّامہ القادری ۔” شیخ اُلاِسلام“۔ کا لقب اختیار کر کے وطن واپس آئے ، پھِر علاج کے لئے کینیڈا چلے گئے ۔پھِر آگئے ۔انتخابات کا بائیکاٹ بھی کر دِیا ۔ اب کب جانے کا پروگرام ہے ۔ فی الحال تو ، علّامہ صاحب کے ، عقیدت مند اُن کی ۔”آنِیاں۔جانِیاں“ ۔ ہی دیکھ رہے ہیں۔ اُن کا ۔” انقلاب “ ۔ کا خواب کب شرمندہءتعبیر ہو گا ؟۔
” رات دِن ، انقلاب کی ، باتیں
 ایسی ہیں ، جیسے خواب کی ، باتیں“
یہ بات بے حد ضروری ہے کہ علّامہ القادری ۔غریبوں کو ایک بار ہی بتا دیں کہ ۔”انقلاب“۔ لانے میں خرچ کِتناہو گا؟۔ اور آئندہ جب علّامہ صاحب کی قیادت میں، لانگ مارچ ہُوا تو ، علّامہ صاحب ،اُن کے خاندان اور پاکستان عوامی تحریک کے دوسرے قائدِین کے لئے کتنے۔بم پروف کنٹینرز کی ضرورت ہوگی ۔بہر حال یہ بات تو طے ہو گئی کہ ، علّامہ طاہر اُلقادری نے ایک کروڑ انقلابیوں کے جمع ہونے تک اپنا ۔”انقلاب“۔ملتوی کر دِیا ہے ۔ان کے ساتھ ووٹر کتنے ہیں انتخابات تو ہو چکے کسی ضمنی الیکشن بھی حصہ لیکر دیکھ لیں!
                                       

ای پیپر دی نیشن