پاکستان پیپلز پارٹی کا زوال و دیگر سیاسی پارٹیوں کیلئے لمحہ فکریہ!

پاکستان پیپلز پارٹی کا زوال و دیگر سیاسی پارٹیوں کیلئے لمحہ فکریہ!

پاکستان پیپلز پارٹی کی تباہی کا آغاز اسی روز ہو گیا تھا جس روز محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ سیاسی سودے بازی کرتے ہوئے NRO پر آمادگی کا اظہار کیا۔ 2008ءکے قومی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ایوان اقتدار میں لانے میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت.... ”ہمدردی کا ووٹ“ بن کر کارگر ثابت ہوئی لیکن اس اقتدار میں ”وصیت کے نام“ سے صدارت کی کرسی بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی تباہی کا باعث بنی۔ نظریاتی اور وفادار کارکنوں کی بھاری تعداد اپنے پارٹی رہنماﺅں کے طرزعمل سے بیزار ہو کر چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔ حد تو یہ کہ پارٹی میں ایسے ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے جو کہ کسی طرح سے بھی پارٹی کی سیاست سے وابستہ نہ تھے۔ اور پھر جس قلم سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکم پر دستخط ہوئے اسے بطور تحفہ جنرل ضیاالحق مرحوم سے لینے والے چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے فرزند چودھری شجاعت حسین اور ان کے کزن چودھری پرویز الٰہی صدر آصف علی زرداری کے دست و بازو بن گئے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کو صدر آصف علی زرداری نے ”قاتل لیگ“ کے نام سے پکارا تھا۔ دراصل یہ ہی لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے خود کش بمبار ثابت ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 28 اکتوبر 1967ءکو لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل کا اعلان کیا۔ پارٹی نے اپنے منشور میں جن چار نکات کو اپنی پارٹی پالیسی میں اپنانے کا اعلان کیا۔ ان میں 1۔ اسلام ہمارا دین ہے 2۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے 3۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں شامل تھے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ”بھٹو ہر اس گھر میں بستا ہے جس کی چھت ٹپکتی ہے“ لیکن موجودہ پارٹی میں طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف دولت کی چمک، لوٹ مار، جھوٹ، فریب اور سیاسی جوڑ توڑ ہی کو بنائے رکھا گیا اور ٹپکتی چھتوں کو بہتر بنانے اور غریبوں کو چھتیں فراہم کرنے کی بجائے خود اپنے لئے ”سرے محل سے لے کر بلاول ہاﺅس“ تک نئے نئے محل تعمیر کروائے گئے۔ پیرس لندن اور امریکہ میں جائیدادیں خریدی گئیں۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں قومی دولت لوٹ کر محفوظ رکھی گئیں۔ اصل میں یہ ہیں وہ عوامل جو اس پارٹی کے زوال کا باعث بنے۔ ایوان صدر کو جیالوں کا ہیڈ کوارٹر بنا کر ایوان صدر کی غیرجانبدار حیثیت کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی تصویر کے سائے میں حکومت چلائی گئی اور خود جیالوں کو بھی دھوکہ دیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف اور قمرالزمان کائرہ جیسے لوگ عوام کی عدالت میں جانے کا بار بار تذکرہ کر کے اپنے سیاسی عزائم سے خوش ہوا کرتے تھے۔ آج ان کے تمام کے تمام خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وفاق کی سطح پر پاکستان پیپلز پارٹی اپنا وجود کھو چکی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری اپنے پورے دور اقتدار میں آج تک ایوان صدر اسلام آباد، بلاول ہاﺅس کراچی، لاہور، لاڑکانہ اور نوڈیرہ تک ہی محدود رہے ہیں اور یا پھر بیرون ملک اپنے دوروں کے دوران لندن، دوبئی، پیرس اور امریکہ میں اپنے مالی امور کی جانکاری کے لئے مصروف رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے محافظ رحمن ملک کو قوم کی سلامتی کے لئے لازم قرار دیا گیا اور وہ اپنی فرائض کی ادائیگی میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جوڑ توڑ اور لین دین کے لئے پاکستان سے باہر دوبئی اور لندن تک ہمہ وقت دوروں پر رہے۔ ملک کے اندر غیرملکی ہاتھوں کی مداخلت کا تذکرہ تو کرتے رہے لیکن کوئی توڑ نہ کیا جا سکا جس کا نتیجہ آج پورے ملک میں مختلف مافیاز کا قبضہ ہے جو کہ بلاشبہ اندرونی سیاسی گروپس کی پشت پناہی کے ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان میں ان مافیاز نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری گذشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں وزارت داخلہ کی نااہلی اور ناقص کارکردگی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی اندرونی صفوں میں رحمن ملک کے خلاف زبردست نفرت پائی جاتی تھی لیکن صدر مملکت کی قربت ان کو ہر مشکل گھڑی میں محفوظ راستہ فراہم کرتی رہی۔ بھٹوز کے مزاروں کو اقتدار کا رستہ قرار دے کر وہاں عوامی اجتماعات پر قومی سرمایہ ضائع کیا گیا۔ خود جیالے حیران ہیں کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر رحمن ملک، اویس مظہر ٹپی اور حسین حقانی کو حکومتی اداروں میں بے جا اہمیت فراہم کی گئی اور حتیٰ کہ حساس اداروں میں رحمن ملک اور حسین حقانی کو جس انداز میں فری ہینڈ دیا گیا یہ ملک کے قومی اداروں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ کبھی بندوق اور کبھی قلم کی سازش کا تذکرہ ہوا۔ گو کہ قوم کو گمراہ کیا جاتا رہا۔ بلاول زرداری کو بھٹو بنا کر بھی پارٹی میں کوئی بھٹو اب موجود نہیں ہے۔ انہی حالات میں اب جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک اپنی سیاست محدود کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ تاریخ سے عبرت حاصل نہ کرنا اور پھر اس پانچ سالہ دور حکومت میں امیر تر ہوتے چلے گئے۔ غریب، غریب تر ہوتے چلے گئے۔ قومی دولت پر چند لوگوں کا قبضہ ہو گیا اور عوام سے ضروریات زندگی چھین لی گئیں۔ حتیٰ کہ ملک کے کارخانے بند اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ۔ یہ وہ اسباب ہیں جو کہ پاکستان کی نمبر 1 قومی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے زوال کا باعث بنے۔ پاکستان میں دیگر سیاسی پارٹیوں کو اب پیپلز پارٹی کے اس انجام سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور آئندہ ملک کے سیاسی کلچر میں انقلابی تبدیلی لانا ہو گی۔ سیاسی پارٹیوں میں مخصوص شخصیات کا غلبہ ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔ ہر پارٹی میں قائد سے لے کر نچلے لیول تک حقیقی عوامی حاکمیت کا تصور اجاگر ہونا چاہئے۔ عوام کو ہر سطح پر ریلیف فراہم ہونا چاہئے۔ VIP کلچر کا خاتمہ اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ حکومتی اداروں اور وزارتوں میں بے جا اخراجات اور عوامی نمائندوں کو قرضوں کی فراہمی پر پابندی ہو۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کی تمام بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں اور قومی خزانے میں ہونے والی خیانت کے بارے میں حقائق پر مبنی وائٹ پیپر شائع ہونا چاہئے اور آئندہ کے لئے اقتدار کی بندربانٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی لعنت ختم ہونی چاہئے۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے پروگراموں میں عوام کے لئے انقلابی اصلاحات کو اپنائیں۔ اقتدار برائے کاروبار یا تجارت نہ ہو۔ اقتدار عوامی خدمت کے لئے ہو۔ اقتدار کے منصوبوں میں امریکی، برطانوی اور دیگر ممالک کی مداخلت اور مشاورت اب ہر حال میں ختم ہونی چاہئے۔ ملک میں سفارتی نمائندوں کے چارٹر کو بین الاقوامی سفارتی قوانین کے تحت لاگو کر کے ان پر عمل کروایا جائے۔ ملک کی اندرونی سیاست میں غیرملکی سفارتی نمائندوں کی دلچسپی قومی مفادات کے لئے گھمبیر مسائل پیدا کر رہی ہے۔ پاکستان کو ایک خوشحال پاکستان بنانا ہے اور عوام کو غربت اور استحصال سے نجات دلانی ہے اور پھر پاکستان کو آزاد اور خود مختار مملکت بن کر ابھرنا ہے تو پھر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو غیرملکی مشاورت اور مداخلت کے آگے بند باندھنا ہو گا اور ثابت کرنا ہو گا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور اقوام عالم کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اپنے روابط استوار کرنا چاہتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اب ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لائیں اور عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائیں ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی کا انجام پوری قوم کے سامنے کھلی کتاب ہے۔ زوال کی یہ داستان اس پارٹی کے اتحادیوں کو بھی لے ڈوبی۔

ای پیپر دی نیشن