اہم شخصیات کی جانب سے دئیے گئے اور وصول کردہ تحائف کی فہرستیں عوام کے سامنے لانے کی ہدایت

اسلام آباد (آن لائن) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے ہدایت جاری کی ہے کہ ہر برس کے اختتام یا چھ ماہ کے بعد صدر، وزیراعظم و دیگر اہم شخصیات کی جانب سے دئیے گئے یا وصول شدہ تحائف کی فہرستیں تیار کرکے عوام کے سامنے پیش کی جائیں تاکہ عوام کے علم میں آئے کہ ان کے پیسے کو کہاں اور کسں طرح استعمال کیا جارہا ہے، کمیٹی نے توشہ خانہ میں آنیوالے، دئیے جانیوالے اور وصول شدہ تحائف کی تفصیلات کو ریکارڈ میں محفوظ کرنے اور اس ریکارڈ کو منظم کرنے کی بھی ہدایت کردی۔ پیر کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی شفقت محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں وزارت خارجہ کے آڈٹ پیرے برائے سال1998-99ء کا تفصیلی جائزہ لیاگیا، اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے مطلع کیا کہ لون، جنیوا اور روم میں موجود پاکستانی مشنز نے وہاں کے بینکوں سے رقوم قرض لیں جو کہ خلاف قانون عمل تھا جبکہ مشنز نے 4کروڑ 18لاکھ 14ہزار 692 روپے کی رقوم اوور ڈرافٹس پر سود کی مد میں ادائیگیاں کیں، وزارت خارجہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت خزانہ کی اجازت سے یہ اوور ڈرافٹس حاصل کئے گئے، شفقت محمود کا کہنا تھا کہ سال2000ء سے بیرون ممالک پاکستانی مشنز کے وہاں کے بینکوں سے اوور ڈرافٹ کے حصول کا سلسلہ بند کیا جا چکا ہے اور اگر 2000ء کے بعد ایسا کچھ ہوتا تو آڈٹ پیرائے ضرور سامنے آتے، کمیٹی نے پیرائے کو رقم کی تصدیق اور مفاہمت سے سیٹل کر دیا، وزارت خارجہ کی جانب سے صدر اور وزیراعظم کی جانب سے چھ دوروں کے دوران غیر ملکی مہمانوں کے لئے ٹینڈرز اور کوٹیشن کے بغیر8.713ملین روپے کے تحائف کے معاملے پر بات وزارت خارجہ امور کے حکام نے بتایا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے لئے تحائف خریدنے کی حد 50,000روپے ہے جبکہ کسی وزیر کیلئے اس کی حد20,000روپے ہے، آڈٹ حکام نے بتایا کہ اس خاص معاملے میں1لاکھ روپے کی حد سے تجاوز کیا گیا تھا اور سیکروٹنی کے بغیر خریداری کی گئی، آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ خریدے گئے تحائف کا ریکارڈ سٹاک رجسٹر پر محفوظ نہیں کیا گیا حالانکہ پروٹوکول کے مطابق یہ ریکارڈ محفوظ کرنا ضروری ہوتا ہے، وزارت خارجہ امور کے حکام نے کہا کہ سٹاک رجسٹرز کا باقاعدگی سے آڈٹ کیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...