الطاف حسین نے پہل کی اور صرف چھڑی کہا، آصف زرداری نے اسے جادو کی چھڑی کہہ ڈالا۔
یہ چھڑی کس بلا کا نام ہے، اس کا علم لوگوں کو تب ہوا جب جنرل کیانی نے جنرل مشرف سے کمان لی۔ یہ منظر پوری دنیا میں لائیو نشر کیا گیا۔
دنیا نے یہ منظر لائیو نشر کر کے یہ پیغام دیا کہ چھڑی کی حیثیت عارضی ہے۔ میںنے اس وقت بھی یہی تائثر لیا تھا کہ دنیا نے پاکستان کی فوجی قوت کا مضحکہ اڑایا ہے۔
عدلیہ تحریک چلی اور سول سوسائٹی نے جی بھر کے پاک فوج کی تحقیر کی۔ ڈھاکے کی کھوتی کا طعنہ بھی استعمال کیا گیا۔
یہ بات کچھ عرصے کے لئے آئی گئی ہو گئی، مگر فوج نے دہشت گردوں کے خلا ف کاروائی کا آغاز کیا تو جماعت اسلامی کے امیر قبلہ منور حسن نے یہ اچھوتا خیال پیش کیا کہ امریکی فوج کی خاطر مرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں کہا جا سکتا۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولا نا فضل الر حمن ایک قدم آگے بڑھے، انہوں نے فرمایا کہ امریکی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے کتا بھی مر جائے تو وہ شہید کہلائے گا۔
پاک فوج کے خلاف نئی مہم تب شروع ہوئی جب کراچی میں نائن زیرواور ملحقہ علاقے میں چھاپا مارا گیا۔ کراچی میں خونریزی مزید بڑھی اور ریاستی مشینری نے بھی آپریشن مزید تیزکر دیا، اسی مرحلے پر یہ سوال اٹھا کہ صوبے کی حکومت کا بھی کوئی فرض ہے یا نہیں، کسی ایک میٹنگ میں سابق صدر زرداری بھی موجود تھے، وہ کیوں موجود تھے، میں اس کی کوئی منطق تلاش کرنے سے قاصر ہوں، مگر وہ ایک ایسی میٹینگ میں آئے جہاں انہیں نہیں آنا چاہئے تھا، اس میٹنگ کے حوالے سے پہلے یہ خبر آئی کہ زرداری اور جنرل راحیل کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے، شاید ابھی کسر باقی تھی، ایک میٹنگ اور ہوئی، اس میں کسی نے کہا ہو گا کہ سندھ کے چیف منسٹرناکام ہو چکے ہیں، اس لئے گھر کی راہ لیں اور حکومت کسی اہل شخص کے حوالے کریں،میڈیا کے مطابق قائم علی شاہ مستعفی ہونے کے لئے تیار ہو گئے مگر ان کی پارٹی کے باس زداری نے کہا کہ آپ کیوں استعفے دیں گے، آپ تو ایک منتخب وزیر اعلی ہیں، میڈیا کا کہنا ہے کہ اس موقع پر بھی تو تکار ہوئی اور میٹنگ کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زرداری نے کہا ہے کہ نہ تو صوبے میں گورنر راج لگے گا اور نہ جادو کی چھڑی سے کوئی خوف لاحق ہے۔
فوج کے بارے میں الطاف اور زرداری کی زبان اور موقف ایک ہو گیا ہے، عام آدنی سوچتا تھا کہ یہ دونوں سندھ کی سیاست میں حریف ہیں مگر تازہ موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ اصل میں دونوں ایک ہیں، سندھ مہاجر کوئی فرق نہیں، عام حالات میں دونوں کو ایک ہی ہونا چاہئے تاکہ صوبے کی کچھ تو بھلائی ہو سکے مگر یہ ایک ہوئے ہیں تو کسی اور مقصد کے لئے۔اور مقصد پاک فوج کی مخالفت کرنا ہے۔ اس مقصد میں وہ اکیلے نہیں ہیں ، جب مشرف کی عدالتی پیشی کا وقت آیا تھا تو پورا میڈیا اور ساری سیاسی جماعتیں اس کے خلاف محاذ آرا ہو گئی تھیں۔ مشرف نے ہسپتال کا رخ کیا تو شور مچ گیا کہ فوج نے اسے پناہ دی ہے، فوجی ہسپتال کے ڈاکٹروں کو بھی نشانے پر رکھا گیا اور جس شخص نے سب سے بڑھ چڑھ کر مطالبہ کیا کہ مشرف کی میڈیکل رپورٹیں منظر عام پر لائی جائیں، اس پر کراچی میں فائرنگ ہوئی تو آج تک اس کی میڈیکل رپورٹ سامنے نہیں آئی۔نہ کسی نے اس سے یہ رپورٹ مانگی ہے مگر مشرف کے حوالے سے فوج کو جس قدر رگیدا جا سکتا تھا، اس کی حد کر دی گئی، میڈیا کے پاس وزیر دفاع کا کوئی بیان موجود تھا جس میں انہوں نے فوج کو بے نقط سنائی تھیں، یہ بیان بار بار نشر کیا گیا، یہ تو پرانا بیان تھا، خواجہ سعد رفیق اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے نئے نئے بیانات دیئے۔
پاک فوج کے بعض عناصر نے کوئی برا کام کیا ہو گا تو یہ ان کا فعل تھا، جنرل کیانی کے بعد تو فوج سیاست سے کوسوں دور چلی گئی۔ جنرل راحیل نے اسی پالیسی کو جاری رکھا۔تو پھر فوج کے بارے میں شب و ستم کیوں۔اس ملک میں غلام محمد نے کونسی نیکیاں کی تھیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ غلام محمد کی آڑ میں سارے سیاستدانوں کو برا بھلا کہا جائے۔سیاست اور جمہوریت کو بطور ادارہ کسی نے مطعون نہیں کیا، اس ملک کی عدلیہ کے ہاتھوں جمہوریت کی جو عزت افزائی ہوئی، اس کی بنیاد پر ہم پوری عدلیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔بھٹو کو جن ججوں نے پھانسی کی سزا دی، گالیاں صرف انہی کو پڑتی ہیں۔کچھ ججوںنے نظریہ ضرورت ایجاد کیا،مگر ان کے بہانے ساری عدلیہ کو تو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔ اور فوج کے بارے میں یہی صا حب جو اس کی جادوئی چھڑی کی تضحیک فرما رہے ہیں، انہی کی بیگم صاحبہ محترمہ بے نظیربھٹو اور انہی کی پیپلز پارٹی نے 1988 میں جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت عطا فرمایا۔ مگر اسی پارٹی کے ایک سفیر حسین حقانی نے فوج کو میمو گٹ اسکینڈل میں رگڑا دیا۔ان کی زبان مبارک آج تک بند نہیں ہوئی۔
ایک کالم نگار نے زرداری کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ ایوان صدر میں راتوں کو خود پہرہ دیتے ہیں اور ان کا بیڈروم لائیو ایمونشن سے بھرا ہوتا ہے ، یہی وہ دن ہیں جب زرداری نے کہا تھا کہ وہ اپنی ٹانگوں پر چل کر ایوان صدر سے باہر نہیں جائیں گے،انہیں صرف اسٹر یچرپر ہی باہر نکالا جا سکتا ہے، یہی وہ دن ہیں جب زرداری نے گڑھی خدا بخش کے خطابات میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ایک زمانہ تھا جب چالیس پچاس لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دے دی تھی مگراب پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو روئے ارض پر کوئی پناہ دینے والا نہیںملے گا۔ ایک پوری قوم کے لئے اس قدر سخت دھمکیاں چہ معنی دارد!
پاک فوج کے بارے میں کس کے کیا عزائم ہیں، اب یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔بیرونی دنیا کو تو علم ہے کہ پاک فوج کو جارحیت کے ذریعے زیر نہیں کیا جا سکتا، ہو گا ایک پلٹن میدان کا سرنڈر جس کا طعنہ ا لطاف کی زبان پر آگیا ہے مگر اب کوئی نیاسرنڈر، ایں خیال است و محال است۔ اب ایک ہی طریقہ ہے کہ اس فوج کو ملک کے اندر کی قوتوں کے ذریعے پٹوا دیا جائے یہ باریک کھیل نہیں ہے، بڑا واضح کھیل ہے جو ہر آنکھ کو نظر آرہا ہے اور برملا کھیلا جا رہا ہے مگر کیا ان قوتوں کو بھارتی فوج قبول ہے جو ساٹھ برس سے کشمیر میں ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے، کیا ان قوتوں کوامریکی یا نیٹو فوج کا چھاتہ قبول ہے جس نے افغانستان کو سرمے کی طرح پیس ڈالا ہے، فوج تو رکھنی ہی پڑے گی۔ اس کے ہاتھ میں چھڑی بھی ہوگی اور اس کے کندھوں پر بیج بھی آویزاں ہوں گے، فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے۔
الطاف، زرداری اور چھڑی
May 20, 2015