اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) مزدور کی کم سے کم مقرر کردہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے وفاق اور کے پی کے کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس حوالے سے رپورٹ اور بیان حلفی جمع کروائیں۔ سماعت کل جمعرات تک ملتوی کردی گئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جب تک متعلقہ محکموں، نجی کمپنیوں کو جرمانے نہیں ہوں گے، دوچار جیل نہیں جائیں گے، معاملات درست نہیں ہوں گے، کاغذوں کی حد تک سب اچھا کی رپورٹس دے کر عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ حکومت یہ تصور کرتی ہے کہ لوگوں کی تنخواہیں ان کی ضرورتوں سے زیادہ ہیں اور وہ خوشی سے چھلانگیں مار رہے ہیں تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ میڈیا رپورٹس پڑھ کر غریب عوام کو بھی خوش فہمی ہوجاتی ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے۔ اب سب کچھ جادو کی چھڑی سے ٹھیک ہوجائے گا، حکومت اگر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکتی تو اختیار سپریم کورٹ کو دے دے ہم قانون سازی بھی کرلیتے اور اس پر عمل درآمد بھی کروا لیتے ہیں۔ یہ لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جو ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے۔ وفاق معاملے پر خصوصی توجہ دے کیونکہ پہلے درستگی گھر سے شروع ہونی چاہئے۔ کے پی کے کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکٹ جنرل نے بتایا کہ صوبے میں 15000 کم از کم اجرت مقرر کی گئی ہے، بیان حلفی اور رپورٹ پر سیکرٹری کے دستخط نہ تھے جس کی وجہ سے جمع نہیں کروائی جاسکتی۔ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رپورٹ اور بیان حلفی تیار ہے عدالت کچھ مہلت دے جلد جمع کروا دی جائے گی۔ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ایک لاکھ 77 ہزار 231 اداروں کی انسپکشن کی گئی جس پر ایسے 17500 کیسز سامنے آئے، 5 ہزار 809 نمٹا دیئے، 11 ہزار 7 سو التواء کا شکار ہیں جبکہ 33 کو سپیشل مجسٹریٹ نے 500 کے حساب سے جرمانے کئے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ انسپکشن والے بھی جرمانہ لے کر چائے شائے پی کر واپس آجاتے ہوں گے۔