اسلام آباد کے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی، قبر کیلئے شناختی کارڈ لازم

اسلام آباد (بی بی سی اردو) اسلام آباد کے رہائشی کامران اطہر کو چند ہفتے پہلے اپنے چچا کی موت کے بعد ایک ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اور وہ تھا قبر کے لیے دو گز زمین کا حصول۔ ان کے چچا ایک سرکاری بینک کے بڑے افسر تھے اور ان کی طرح چند برس پہلے ہی کوئٹہ سے ہجرت کرکے اسلام آباد آئے تھے۔ انہوں نے بتایا اسلام آباد کے دونوں سرکاری قبرستانوں میں انہیں قبر کے لیے جگہ نہیں مل سکی۔ جو سرکاری قبرستان ہے ایچ ایٹ کا۔ اس کے عملے نے پہلے تو یہ کہا کہ وہ بھر چکا ہے اور وہاں جگہ نہیں مگر بعد میں یہ کہا گیا کہ آپ کے شناختی کارڈ پر چونکہ کوئٹہ کا پتہ درج ہے اس لیے یہاں پر آپ کو جگہ نہیں مل سکتی کیونکہ یہاں صرف اسلام آباد والوں کو دفن ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ دارالحکومت میں جو باقی ماندہ قبرستان ہیں وہ یا تو مخصوص برادریوں کے ہیں یا گاؤں والوں کے اور کامران اطہر کی کوششوں کے باوجود وہاں بھی انہیں اپنے چچا کو دفن کرنے کی جگہ نہیں ملی۔ کامران اطہر کے چچا کے پڑوسی کے کارڈ پر انہیں اسلام آباد کے نواحی علاقے پی ڈبلیو ڈی کے قبرستان میں قبر کی جگہ ملی جو ان کے گھر سے اٹھائیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسلام آباد میں مسلمانوں کے لیے سی ڈی اے کے دو قبرستان ہیں جن میں سے ایک میں جگہ ختم ہوچکی ہے اور جڑواں شہر راولپنڈی کے قبرستانوں میں بھی جگہ کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے باہر سے آنیوالے لوگوں کے لیے اپنے مردوں کی تدفین کی خاطر جگہ کا حصول خاصا سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ دارالحکومت کے کئی علاقے نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے تعمیر کیے ہیں۔ سیکٹر ای الیون اس کی بہترین مثال ہے جسے کم سے کم پانچ کوآپریٹو سوسائٹیوں نے تعمیر کیا ہے مگر وہاں بھی ڈھونڈے سے کوئی باضابطہ قبرستان نہیں ملتا۔ ای الیون میں واقع فیڈریشن آف ایمپلائز کوآپریٹو سوسائٹی کے صدر ارمان عزیز نے بتایا کہ ان کی اپنی سوسائٹی کے نقشے میں بھی قبرستان موجود تھا مگر بعد میں اس جگہ پر دکانیں بنادی گئیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...