آج پھر ظفر راٹھور سے اچانک ملاقات ہو گئی اور پھر سے لکھائی پڑھائی اور علم کی بات چل نکلی اور میں پھر سے احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا۔ خدا نے ظفر کو بلا کا حافظہ عطا کیا ہے اور وہ فوراً کتاب کا نام اور اس میں لکھی ہوئی چیدہ چیدہ باتیں مستند حوالوں سے بیان کر دیتا ہے۔ آج کے ذکر میں حکمرانوں اور دیگر ارباب اختیار کی اہلیت اور کارکردگی کا ذکر چھڑ گیا، اس نے بتایا کہ مغل شہنشاہ اکبر اعظم اور رنجیت سنگھ دونوں ان پڑھ تھے مگر نہایت اچھے حکمران تھے، وہ کسی بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔ ان کی رعایا مطمئن اور خوشحال تھی۔
اکبر اعظم نے نورتن اپنے دربار میں جمع کئے ہوئے تھے اور ان کی مشاورت سے صحیح فیصلے کرتا تھا۔ رنجیت سنگھ بھی ان پڑھ مگر نہایت ذہین اور نیک نیت حکمران تھا اور اس کا دور حکومت بھی عوام کیلئے سنہری دور حکومت تھا۔
رنجیت سنگھ افیون کھایا کرتا تھا مگر یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں تھی۔ ایک دن افیون کی گولی کھا کر شام کے وقت وہ اپنے سینکڑوں مصاحبین کے ساتھ دریائے راوی کی سیر کو گیا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور افیون نے اثر دکھایا۔ ذہین تو تھا ہی اپنے اپنے مصاحب خاص سے کہا کہ انسان اپنی غلط کاریورں سے ہی سیکھتا ہے ورنہ ہمیشہ جاہل رہتا مثلاً بچپن کی بداعمالیاں، چوری چکاری وغیرہ سبق آموز حرکات ہیں تو ہر ایک سے اس کے بچپن کی غلط کاریوں کے متعلق پوچھنا شروع کیا اور محسوس کیا کہ مصاحب کچھ حجاب محسوس کرتے ہیں اور کھل کر نہیں بتاتے۔
رنجیت سنگھ نے افیم کے نشے میں اپنی غلط کاریوں کی تفاصیل اور اعتراف سے بات آگے بڑھائی۔ پھر رسم چل پڑی اور سب نے اپنے بچپن کی بداعمالیوں کے قصے سنائے۔ کشتی کا ملاح خاموش رہا۔ رنجیت سنگھ کو یہ احساس ہوا کہ یہ تو جا کر لوگوں سے مصاحبوں اور رنجیت سنگھ کے اپنے اعترافات کا ذکر دوسروں سے کرے گا اور یوں بدنامی ہو گی۔ ملاح سے کہا کہ وہ بھی اپنے بچپن کی غلط کاریوں کے قصے بتائے۔ ملاح نے کہا جناب ہم تو شروع سے ہی غریب ہیں، کبھی بھوک اور افلاس نے دامن ہی نہیں چھوڑا، جب سے ہوش سنبھالا ہے روزی کے چکر میں کچھ کوتاہیوں اور چوری چکاری کا مرتکب رہا ہوں، بدکرداری کی کبھی فرصت ہی نہیں ملی، آج آپ کی باتیں سن کر مجھے علم ہوا اور تسلی ہوئی کہ میں اکیلا ہی گناہگار نہیں ہوں مگر میں نے بدکرداروں اور غلط کاروں کا اتنا بڑا اکٹھ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
کاش وہ ملاح آج زندہ ہوتا اور حکمرانوں کے درباریوں اور مصاحبوں کے جھوٹے اور گمراہ کن شب و روز بیانات سنتا تو اسے ندامت کی بجائے تسلی ہوتی کہ حکمرانوں کی مدح سرائی کس ڈھٹائی، دیدہ دلیری سے جاری ہے اور ان کا یہ تاثر ہے کہ عوام ان کے گمراہ کن بیانات کو سچ مان رہے ہیں۔ بات تو پانامہ میں آف شور کمپنیوں میں حکمران خاندان کے اثاثوں کا راز کھلنے اور انگلستان میں اتنی قیمتی اور مہنگی جائیدادوں کے حصول کی ہے۔ حکمران پاکستان کے عوام کو اتنی دولت اکٹھی کرنے اور حصول کے ذرائع کے جوابدہ ہیں۔ اس جھگڑے میں عمران خان کہاں سے آ گیا۔ وہ تو حکمران نہیں اور آج کل اس کی کوئی آف شور کمپنی بھی نہیں۔
خدا نے قرآن میں تیسرے پارہ میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
مزید برآں قرآن کی سورۃ المائدہ کی آیت 87-88 میں خدا نے فرمایا:
’’مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھائو اور خدا سے ڈرتے رہو‘‘۔
سورۃ المائدہ کی آیت 99 میں فرمایا:
’’پیغمبر کے ذمہ تو صرف پیغام کا پہنچا دینا ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ مخفی کرتے ہو خدا کو سب معلوم ہے‘‘۔
سورۃ الانعام کی آیت 99 میں فرمایا:
’’کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے پائوں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پائوں بھی ایسے نہیں جمائے۔ ان پر لگاتار مینہ برسایا اور نہریں بنا دیں جو ان کے (مکانوں کے) نیچے بہہ رہی تھیں، پھر ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دیا، اس کے بعد اور امتیں پیدا کر دیں‘‘۔
نادان دوست
May 20, 2016