جنوبی پنجاب کی محرومیاں

May 20, 2016

امتیاز احمد تارڑ

تخت لاہور پر براجمان سیاسی طبقے کو جنوبی پنجاب کے عوام کی خستہ خالی کا اندازہ ہی نہیں۔ لاہور میں میٹرو بس کے بعد اورنج ٹرین چلا کر سرائیکی پٹی میں بسنے والی خلق خدا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ باردانہ نہ ملنے کے باعث مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پستے کسانوں کے شب و روز مزید تلخ ہو گئے ہیں۔ جبکہ لاہور کا مراعات یافتہ طبقہ پہلے سے زیادہ آسودہ حال ہو رہا ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں سرائیکی پٹی نے جس طرح پنجاب کی تقسیم کے نعرے کو دفن کر کے میاں برادران کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ قابل رشک تھا انہوں نے میاں شہباز شریف کے جنوبی پنجاب کی محرومیاں ختم کرنے والے عزم کو سراہا تھا۔ ان کی سوچوں میں لاہور، ملتان، رحیم یارخان، مظفر گڑھ، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خاں میں یکساں تبدیلی آنی تھی۔ انہوں نے اپنے ووٹوں سے پیپلز پارٹی کی پنجاب کی تقسیم والے منصوبے کو خاک میں ملا کر دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ دیا تھا کہ ہم ایک ہیں اور تخت لاہور کے سایہ میں ہی رہنا چاہتے ہیں لیکن ان کی امیدوں کے 2 سال بے بسی اور بے چارگی کی بکل مارے انکے شہروں سے گزر گئے۔ جنوبی پنجاب کو ایک ڈپٹی سپیکر اور جھونگے میں لولی لنگڑی چند وزارتیں ملیں۔ جس سے لاہور اور جنوبی پنجاب میں مزید فاصلے پیدا ہوگئے۔ رہی سہی کسر خادم پنجاب کے بیورو کریٹ خادموں نے ترقیاتی فنڈز جاری نہ کر کے نکال دی ہے۔ خادم پنجاب سے وابستہ بیورو کریسی کو مبارک ہو کہ انہوں نے وہ کام کر دیا ہے جو پیپلز پارٹی پچھلے پانچ سال میں نہ کر سکی۔ پی پی کے رہنمائوں نے جنوبی پنجاب جا کر تحت لاہور کے خلاف زہر اگلا لیکن سرائیکی بھائیوں نے میاں شہباز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ۔ بیورو کریسی ان کی محرومیوں پر نمک چھڑک کر انہیں بغاوت پر آمادہ کر ہی دیا ہے۔ خادم پنجاب جن محلات کی شہہ نشینوں سے جنوبی پنجاب کا احوال دیکھ رہے ہیں وہاں سے ایسا ہی نظر آتا ہے۔ ایسے رنگا رنگ شیشوں سے مزین محلات میں بیٹھ کر چودھری پرویز الٰہی نے بھی جنوبی پنجاب میں جھانکا تو انہیں چار سو قوس قزح کے رنگ بکھرے نظر آئے تھے رہی سہی کسر ان کے گرد بیٹھے خوشامدی پیشہ حواریوں نے پوری کر دی تھی لیکن انہیں بھی 2008ء کے الیکشن میں پتہ چلا کہ ریگستانوں میںمہکتے نظر آنے والے لالہ و گل ان کی آنکھوں کا فریب تھا۔ حقیقت میں وہاں پر کسان کے بنجر کھیتوں سے ریت اڑ رہی تھی۔ مجھے بڑھتی بے روزگاری کا رونا رونا ہے نہ ہی غربت کی لکیر سے نیچے لڑھکتے افراد کا حساب و کتاب پیش کرنا ہے۔ مجھے وہاں کے وڈیرے کی آشیر باد سے جنم لینے والے چھوٹو گینگ کی بات کرنی ہے نہ ہی امن و امان کی بگڑی صورت حال کا ماتم کرنا ہے۔ مجھے محکمہ صحت کی بات کرنی ہے نہ ہی تعلیم کے میعار کو لیکر اس کا احوال بیان کرنا ہے کیونکہ یہ ملک بھر میں ایک جیسا ہی ہے لیکن مجھے جنوبی پنجاب کے عوام کا ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کا مقدمہ پیش کرنا ہے۔ ملتان کے لوگ لاہور جیسی آسائش والی زندگی نہیں مانگتے انہیں میٹرو بس بھی نہیں چاہیے۔ نہ ہی انہیں ضرورت ہے۔ ان کی ضرورت پکی سڑکیں ہیں۔ تاکہ کسان اپنے کھیتوں سے فصل منڈی تک آسانی سے لا سکیں۔ انہیں پنجاب کارڈیالوجی لاہور جیسا جنوبی پنجاب کے وسط میں ہسپتال چاہیے۔ انہیں پنجاب بھر کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس جنوبی پنجاب میں چاہئیں۔ انہیں ملازمتوں میں آبادی کے تناسب سے بیورو کریسی میں حصہ چاہیے۔ وزارت اعلیٰ نہیں تو دو سینئر وزیران کا حق ہے۔ اچھی وزارت ان کا حق ہے وہ انہیں ملنی چاہیے سیٹوں کے تناسب سے پارلیمانی سیکرٹری اور مشیر بھی انکا حق ہے۔ خادم پنجاب میاں شہباز شریف موخرالذکر میں انہیں کچھ بھی دیں تو وہ راضی ہیں۔ لیکن ترقیاتی فنڈز نہیں دیں گے تو وہ ناراض ہوں گے، آہ و بکا کریں گے پھر ان کا شکوہ بجا ہے خادم پنجاب نے صاف پانی کا پروجیکٹ جنوبی پنجاب سے شروع کیا ہے۔ جو خوش آئند ہے۔ لیکن صرف پانی محرومی کا حل نہیں ہے۔ خادم پنجاب کے فیصلوں کی کوکھ سے ان کیلئے محبت جنم تب لے گی۔
جبکہ وہ انہیں سڑکیں بھی دیں گے۔ شاید میاں شہباز شریف جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کا حق دینا چاہتے ہوں لیکن ان کے گرد بیٹھی بیورو کریسی انہیں آرزئوں کے خاکے میں رنگ بھرنے کی جانب نہ آنے دے رہی ہو۔ میاں شہباز شریف نے اپنی خود کاشتہ فصل کو 2018ء کے الیکشن میں کاٹنا ہے۔ اگر آج یہ نفرتیں اور عداوتیں بوئیں گے تو ان سے محبت جنم نہیں لے سکے گی۔ اس لئے وہ اپنے فیصلوں کی ناک میں بیورو کریسی کو نکیل ڈالنے کی اجازت نہ دیں بلکہ جنوبی پنجاب کے فیصلوں پر خود مہر ثبت کر کے وہاں کے وزراء اور ایم پی ایز کے ذریعے ان پر عملدرآمد یقینی بنائیں ایسے فیصلوں سے خادم پنجاب کا نام ملتان کی تاریخ کے سنہری ورق میں شامل ہو جائے گا۔ ورنہ ان کے پیش رو کی طرح تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بنے گا۔ اب فیصلہ میاں شہباز شریف کو کرنا ہے کہ وہ سرائیکی عوام کی محرومیوں کو ختم کرتے ہیں یا نہیں۔محرومیوں کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہاں ایم پی ایز وزراء کو ترقیاتی فنڈز دے کر انہیں کسانوں کیلئے پختہ سڑکیں بنانے کا موقع فراہم کیا جائے۔

مزیدخبریں