ون بیلٹ ون روڈ ۔۔۔ دنیا میں امن کی ضامن

May 20, 2017

رانا زاہد اقبال

دنیا کی سامراجی اور استحصالی قوتوں کی بزورِ طاقت دوسرے ملکوں پر قبضہ کی سوچ کے برعکس چین مختلف چھوٹے بڑے ملکوں کو بری، بحری اور فضائی کوریڈور کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش میں ہے۔ چین میں ہونے والی " ون بیلٹ ون روڈـ ــ" کانفرنس میں دنیا کے 130ملکوں کی شرکت سے دنیا میں تبدیلی کی باز گشت گونجی ہے۔ یہ ابتداء ہے امن و رواداری کی جس پر پاک چین اقتصادی راہداری کے نام سے سفر کا آغاز ہو چکا ہے جو نام ہے معاشی ترقی، امن ،بھائی چارے اور عالمی سطح پر بھوک ، افلاس غربت، مفلسی چھوٹے ملکوں کے استحصال کے خاتمے کا۔ یہ کسی ایک یا دو ملکوں کے مفاد کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کے فوائد پوری دنیا کے لئے ہیں۔ جب چینی صدر شی چن پنگ نے تین سال قبل بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ شروع کیا تو یہ زیادہ تر تجارت اور رابطہ سازی پر مرکوز تھا۔ اس کا محور اب بھی یہی ہے لیکن بیجنگ میں دو روزہ فورم کے دوران یہ واضح ہوا کہ اس پراجیکٹ کا دائرہ اب پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
چینی صدر نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زمینی راستوں کو بندرگاہوں سے منسلک کر دیا جائے اور بری وبحری راستوں کا انفراسٹرکچر کا ایک نیٹ ورک تشکیل دیا جائے، ہم دوستانہ قسم کے رابطے بھی تشکیل دیں گے مثلاً معلومات کا تبادلہ، ضابطوں کا باہمی احترام اور قانون کے نفاظ میں باہمی معاونت اور مختلف شعبوں میں تعاون جن میں پائدار ترقی، بد عنوانی کے خلاف لڑائی، غربت میں کمی اور سانحوں میں تخفیف شامل ہے جس کا مقصد آزاد تجارت اور جامعت کے ساتھ امن کی راہیں متعین کرنا ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی کی اصل جڑ دولت کی غیر متوازن تقسیم ہے چین دنیا میں معاشی توازن کو فروغ دینے کے لئے اتنی انویسٹمنٹ کر رہاہے۔ اصل دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی یہی ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کے اسباب ڈھونڈ کر ان کا قلع قمع کیا جائے۔ آج تک دنیا میں ہر جگہ دہشت گردی کا رونا رویا جاتا ہے لیکن دہشت گردی کی وجوہات کو تلاش نہیں کیا جا رہا تھا۔ اصل مسئلہ کو نظر انداز کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ اگر اس کے اسباب پر توجو دی جاتی تو سامراجی قوتوں کے استحصالی مفادات پورے ہونے سے رہ جاتے ۔ بھارت اس معاشی توازن کے پیکیج کی مخالفت کر رہا ہے۔ بھارت نے اس کانفرنس میں اپنے مندوب بھیجنے سے انکار کر دیا۔ بھارت یہ سب کچھ پاکستان دشمنی میں کر رہا ہے۔ ایک طرف تو بھارت اپنے ملک میں دہشت گردی کا رونا روتا رہتا ہے تو دوسری طرف وہ کرۂ ارض سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں پر دنیا کا ساتھ دینے کو بھی تیار نہیں ہے۔ بھارت پاکستان دشمنی میں کانفرنس کا بائیکاٹ کر کے دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی خواہش دل میں لئے خود ہی تنہا ہو گیا۔ بھارت ایسے منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے جو صرف چین یا پاکستان کے لئے بلکہ اس منصوبے سے ساری دنیا کا مفاد وابستہ ہے۔ یہ منصوبہ مشرقی اور مغربی ایشیا کو ملائے گا در حقیقت اس کے ذریعے دنیا نئے اکنامک دور میں داخل ہو رہی ہے لیکن ایک عالمی فلاحی منصوبے کو بھارت سیاسی رنگ دینا چاہ رہا ہے۔ اصل میں سی پیک نیو ورلڈ آرڈر ہے جو انسانی فلاح کا ضامن ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھارت کیا چاہتا ہے؟ بھارت نہیں چاہتا کہ سی پیک مکمل ہو اور گوادر کے راستے چین کے لئے تیل کی ترسیل باآسانی و کم خرچ ہو جائے اور اس کا مال کم لاگت میں برق رفتاری سے مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپی ممالک پہنچ جائے جس سے چینی معیشت مضبوط ہو جائے۔ کوریڈور کے کشمیر میں سے گزرنا بھی بھارت اس لئے پسند نہیں کہ اس کا خیال ہے چینی آمد ورفت سے پاکستان کی گرفت کشمیر میں مزید مضبوط ہو گی۔ بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ چینی بحریہ گوادر میں اڈا بنائے گی تا کہ وہ تجارتی جہازوں کو ایسکوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ان سمندروں پر بھی بھی نظر رکھ سکے گا جس سے پاکستان کو اس پر برتری ہو جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ سی پیک بھارت کو بری طرح کھٹک رہا ہے اور وہ پاکستان کو ہر طرف سے زچ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت گزشتہ کافی عرصہ سے سرحدی خلاف ورزیاں کر رہا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان دائمی کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اعتماد کی راہیں مسدور ہو گئی ہیں۔ بھارت کسی کی ثالثی کو ماننے تک کو تیار نہیں ہے، چند روز قبل ترکی کے صدر بھارت کے دورے پر آئے تھے اور انہوں نے مزاکرات شروع کرنے کی بات کی تھی جس کو ہندوستان کی طرف سے پزیرائی حاصل نہ ہوئی۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے جب اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر نے معاملے میں اپنا مناسب رول ادا کرنے کی بات کہی تھی تو تب بھی ہندوستان نے اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ بھارت کبھی تیسرے فریق کی ثالثی کو پسند نہیں کرے گا کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ میں قرار دادیں پڑی ہوئی ہیں جب بھی کوئی ملک ثالثی کے لئے آئے گا تو وہ ان قرار دادوں کی موجودگی میں بھارت کی طرفداری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا۔ کشمیر میں استصوابِ رائے بھارتی حکومت اور بھارتی انتہا پسندوں کو اس لئے بھی قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ اگر کشمیری عوام استصوابِ رائے میں اپنی رائے پاکستان کے حق میں دے دیتے ہیں تو بھارت کے لئے اس سے بڑی ہزیمت و رسوائی کیا ہو سکتی ہے، اس کے سبھی دعوے باطل ہو جاتے ہیں اور عوام ایسے حکمرانوں کی تکہ بوٹی کر دیں گے جنہوں نے ایک فریب پر پردہ ڈالے رکھنے کے لئے عوام کو غربت اور افلاس کی دلدل میں پھنسائے رکھا۔

مزیدخبریں