آئی نہیں ہے اب تلک مجھ کو تو دلگی
میرے مہرباں ت±و آکے مل مجھ کو سکھا بہت
الجھے ہو ئے اشعار ہیں شاعری بکھر گئی
ہر مصرع ہوگیا لہو گونجی صدا بہت
ا±بھرا منڈیر پر لئے سورج خواب پھر
افسانہ کرکے جا ئے گا دے گا دغا بہت
وہ ساعتیں ،وہ راستے ،وہ سبز پوش رنگ
اس جلوہ بے خودی میں ہو ئے مبتلا بہت
وصف ِگویائی دے سکے ترے پیار کی کسک
صفت ِ دانائی مل سکے ہو گی عطا بہت
ویران شاخساروں پر نئے حوصلے کھلیں
نہ زرد ر±ت کہیں بسے اتنی دعا بہت
مجھ کو اکیلی چیر کر گزری سزا بہت
ا±س بے اثر کا ہی اثر مجھ پر رہا بہت
اک دن مری تھی بات ا±ٹھی اخبار میں
الویرا خستہ جان و دل ہوتا گیا بہت