پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے گورننگ بورڈ اراکین کے خلاف کارروائی پر قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہونا تھا اچانک علم ہوا کہ انکی پہلے سے کوئی مصروفیت ہے۔ اس اہم اجلاس میں پیش ہونے سے معذرت کر لی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ طلبی کو پسند نہیں فرماتے یہی وجہ ہے کہ اچانک پہلے سے طے شدہ مصروفیت کا عذر پیش کرنا پڑا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے معذرت کی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ انکی عدم موجودگی میں چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد اور لیگل ڈیپارٹمنٹ کے سلمان نصیر قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ آئی سی سی میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ساتھ یا انکی عدم موجودگی مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان شرکت کیا کریں گے لیکن قائمہ کمیٹی میں سوالات کا جواب دینے کے لیے سبحان احمد پیش ہو رہے ہیں، جب چیئرمین کے اختیارات ایم ڈی کو منتقل کیے گئے ہیں، جب ایک شخص کی غیر آئینی و غیر قانونی تعیناتی کو انا کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے تو پھر چیئرمین کی عدم موجودگی میں قائمہ کمیٹی کے سامنے وسیم خان کے بجائے سبحان احمد کیوں پیش ہو رہے ہیں، جب چیئرمین کے بعد ایم ڈی سب سے اہم اور بااختیار افسر ہیں تو کیا پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے انہیں پیش نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقی معنوں میں تو چیئرمین کے نمائندے وہی ہیں۔ اس کام کے لیے چیف آپریٹنگ آفیسر کو کیوں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ بھاری مراعات کوئی اور لے، فیصلے کوئی اور کرے، غیر آئینی اقدامات کوئی اور کرے اور جواب کوئی اور دے۔
قائمہ کمیٹی کے رکن اقبال محمد علی نے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے پیش نہ ہونے کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ چیئرمین خود کو پارلیمنٹ سے بھی بڑا سمجھ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، پارلیمنٹ ریاست کے اداروں کی محافظ ہے، کیا وجہ ہے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے بہانے تراش رہے ہیں۔ ہم عوام کے نمائندے ہیں کرکٹ بورڈ میں جنگل کا قانون نہیں چل سکتا۔ کمیٹی کے سامنے بورڈ حکام تسلی بخش جواب دینے اور اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد نے موقف اختیار کیا ہے کہ نعمان بٹ کو معطل نہیں گیا۔تاہم ضابطہ اخلاق کے تحت کوئی رکن بورڈ کے خلاف بات نہیں کر سکتا،کیا بورڈ کے سی او او یہ بتانا پسند کریں گے کہ ملکی کرکٹ کے مستقبل کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، کیا میٹنگ میں فیصلوں سے اختلاف کرنا بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، اگر گورننگ بورڈ اراکین کو فیصلوں سے اختلاف کا حق بھی حاصل نہیں ہے تو اس مشق کی ضرورت کیا ہے، اگر بورڈ کو جمہوری انداز میں چلایا جا رہا ہے پھر اختلاف رائے تو جمہوریت کا حسن ہے۔ کیا گورننگ بورڈ اراکین کو صرف"یس سر" کہنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ کیا آئین پاکستان شہریوں کو آزادی اظہار کی اجازت نہیں دیتا،بورڈ نے وسیم خان کی تعیناتی پر موقف اختیار کیا ہے کہ آئین میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں، کیا دوہری شہریت کے حوالے سے فیصلوں کا اطلاق پاکستان کرکٹ بورڈ پر نہیں ہوتا، اگر کرکٹ بورڈ کے آئین میں ایسی تعیناتی پر پابندی نہیں ہے تو دیگر کارروائیاں بھی آئین کے مطابق کر لیں، سترہ اپریل کو پیش ہونیوالی قرارداد کوئٹہ کو بھی آئین کی روشنی میں تسلیم کر لیا جاتا۔ کیا کوئٹہ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر شاہ دوست کے خلاف یکطرفہ کارروائی آئین کی روشنی میں کی گئی ہے، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی قائمہ کمیٹی کے سامنے کیوں پیش نہیں ہو رہے۔
کیا وہ خود کو پارلیمنٹ سے بھی بالا سمجھتے ہیں، وہ خود وہاں پیش نہیں ہوئے تو انکی جگہ جواب دینے کے لیے مینجنگ ڈائریکٹر کیوں نہیں جا رہے، گورننگ بورڈ کے ساتھ ہونیوالے جھگڑے میں، مینجنگ ڈائریکٹر کی تعیناتی اور دیگر اہم معاملات میں سبحان احمد اور سلمان نصیر تو فیصلے کا اختیار ہی نہیں رکھتے جب وہ فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہیں تو قائمہ کمیٹی کو بہتر جواب کیسے دے سکتے ہیں۔
ایک طرف پاکستان کرکٹ بورڈ میں کارپوریٹ کلچر لانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف منتخب نمائندوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تسلسل کے ساتھ غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کیے جا رہے ہیں، ایک طرف گورننگ بورڈ کو سپریم باڈی کہا جاتا ہے تو دوسری طرف سترہ اپریل کو اسی سپریم باڈی کی پیش کردہ قرارداد کوئٹہ کو کاغذ کا ٹکڑا کہا جاتا ہے، ایک طرف گورننگ بورڈ اراکین کو سپریم کہا جاتا ہے تو دوسری طرف ان منتخب اراکین کے سیاسی مخالفین کو بورڈ بلا کر سیاسی محاذ آرائی کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ایک طرف ان اراکین کو سپریم کہا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں کرکٹ بورڈ طلب کر کے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے پاس قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے وقت نہیں ہے لیکن ان کے پاس مختلف ریجنز کے ہارے ہوئے کرکٹ کے سیاست دانوں سے لمبی ملاقاتوں کے لیے وقت ہے، وہ حکمراں جماعت کے حمایت یافتہ افراد کو وقت دے سکتے ہیں لیکن قائمہ کمیٹی کے پاس نہیں جا سکتے، وہ سطحی سیاست کو وقت دے سکتے ہیں لیکن قائمہ کمیٹی کو نہیں۔قائمہ کمیٹیوں کی ایک آئینی و قانونی حیثیت ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے اپنے گورننگ بورڈ کی اراکین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے بعد قائمہ کمیٹی کی حیثیت کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔