مرشدم مجید نظامی سے جدائی کا وقفہ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ فطری عمل ہے کہ جانے والوں کی یادیں گزرتے ہرلمحے کے ساتھ محوہوتی جاتی ہیں شاید اسی لیے کہتے ہیں وقت کا مرہم بڑے سے بڑا گھاؤ بھی بتدریج مندمل کردیتاہے اوریہی قانون فطرت ہے۔سنگ دل اورظالم کرونا رْت میں بے پناہ وقت میسر ہے۔ معمول کی تیزرفتارزندگی معطل ہے۔ اب تو دوماہ ہوئے ہیں زندگی کے نئے آہنگ سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ وقت کی کمی کارونا رونے والوں کوبھی بے پناہ وقت میسر ہے۔ بہارمیں ایسا ظالم موسم آیا ہے کہ بہارکے رنگ بھی مدھم اورپھیکے پڑگئے ہیں۔ چہارسوسناٹے میں صرف موت کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ کرونا وائرس ملک الموت بن کرنازل ہوئی ہے۔
مرشدم مجید نظامی کی آج چھٹی برسی ہے۔بیشترواقعات کا انہی صفحات پر مختلف انداز میں ذکراذکار ہوچکا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کے حوالے ایک واقعہ نجانے کیوں بیان نہیں کرسکا کہ شاید اس واقعے کو غیرمتعلق سمجھ کر فراموش کرچکاتھا۔اسی طرح جماعت اسلامی کے حوالے سے جناب نظامی کے تمام تحفظات ایک کرکے سچ ثابت ہوئے
امرواقعہ یہ ہے کہ گزرتاوقت بڑے بڑے گھاؤبھر دیتا ہے اورقانون فطرت یہی ہے کہ افق کے اس پار چلے جانے والوں کو خون کے رشتے بھی بھلا دیتے ہیں۔ والدگرامی قدر رانا محمد اشرف خان اب کبھی کبھاریاد آتے ہیں لیکن جناب مجید نظامی کے حوالے میرے ساتھ معاملہ بالکل اْلٹ ہوا ہے۔ روزانہ کسی نہ کسی مسئلے پران کی یاد آتی ہے تو سب کچھ بھول بھال کر یادوں کے چراغ روشن کرکے اپنی تنہائیوں کو آباد کر لیتا ہوں جماعت اسلامی بارے ان کے تحفظات پر شدت سے اختلاف کرتا رہا کہ جماعت بارے آپ کا موقف ٹھیک نہیں ہے۔ جماعت نے تو تحفظ دفاع پاکستان کے لئے ساری جماعتوں کے مقابل زیادہ قربانیاں دی ہیں انہیں مرحوم مشرقی پاکستان کے وفا شعار بنگالی نوجوانوں کی یاد دلاتا جن کا پاک باز لہو وحدت پاکستان کے لئے بہا ا ور موجودہ پاکستان میں اجنبی ٹھہرا۔میں اکیلا بیٹھ کر یہ ثابت کرنیکی کوشش کرتا کہ یہ قربانیاں تو ہتھیار ڈالنے والی فوج سے بھی زیادہ ہیں۔
نظامی صاحب میرے بچگانہ اصرار اورکج بحثی پرفرماتے کہ جماعت اسلامی کی قربانیوں اور حب الوطنی پرکوئی کافربھی شک نہیں کر سکتا۔خاص طور دستورسازی اور پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے بانی جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمات سارے ملک کے سیاستدانوں سے زیادہ ہیں جب استفسار کرتا کہ پھر آپ ان سے فاصلہ کیوں رکھتے ہیں۔ صحیح طریقے سے سرپرستی کیوں نہیں کرتے تومسکراتے ہوئے فرماتے معاف کرنا اک دن تہانوں اصل حقیقت پتہ چل جائے گی۔
ایک دفعہ توحد ہوگئی یہ کالم نگاراصرار کرتارہا پیہم اصرارکہ مجھے اپنے اصل تحفظات سے آگاہ کریں جس پر نظامی صاحب نے فرمایا کہ پھرآج کے بعد یہ موضوع ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا اورتم اس کاکبھی ذکرنہیں کروگے میں نے وعدہ کرلیا کہ کوئی بحث نہیں کروں گا۔
اس پرجناب مجید نظامی نے دھیرج سے فرمایا حدیث شریف ہے کہ "عملوں کا دارومدار نیتوں پرہے" اورتمہارے دوستوں کی نیتیں ٹھیک نہیںہیں۔ اب تم انتظارکرنا کسی نہ کسی دن حق تم پرعیاں ہوجائے گا اورپھرتم درودشریف پڑھ کرایصال ثواب مجھے بھجوانا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے خاکسار نے بڑی شوخی سے کہا اللہ نہ کرے آپ کہیں جانے والے نہیں ہیں جس پروہ مسکراتے رہے۔ اوربات آئی گئی ہوگئی بس مدتوں بعد اور جب 'رفاہ یونیورسٹی'گھوٹالے کی تفصیلات منظرعام پرآئیں قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں ہوش رْبا انکشافات ہوئے کہ کیسے آئی پی ایس کا پلاٹ تبدیل کراکے بیچا گیا۔ایف 6 کے پوش علاقے میں ہوٹل نما عمارت کانقشہ ‘‘مل ملا’’ کر منظورکرایا گیا وہ عمارت بھی تجارتی مقاصد کے استعمال پر بند کردی گئی۔ 18کنال زمین 60کروڑروپے کی عمارت ایچ 8سیکٹرمیں 82,ہزار روپے کرایے پر دے دی گئی اوربرادرم لیاقت بلوچ کو تحقیقاتی کمیٹی کاسربراہ بنا کر مٹی پاؤحکمت عملی ترتیب دے دی جب مزید حیران کن تفصیلات سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ پروفیسر خورشید کے سگے بھائی انیس احمد خود ہی لینے اوردینے والے ہیں۔ غرض یہ کہ ان متقی حضرات سے Clash of Interest کی سیکولر کلاز پر عمل درآمدنہ ہوسکا تھا۔
جس ڈھٹائی سے مستند بد قماشوں کے دفاع میں بزرگان کو سینہ سپر دیکھتا ہوں تو نظامی صاحب اور ان کی باتیں یاد آتی ہیں اور آنسو بہاتا رہتا ہوں۔عمران کے کرکٹ تبصرے اورتجزیے کا اعلان کردیا اوربین الاقوامی اخبارات کی قطاریں لگ گئیں اور معاملات طے پاگئے اصل معاملہ کسی مقامی میڈیا گروپ سے بات چیت کرنے کا تھاان دنوں یہ کالم نگار معاصر میڈیا گروپ کا کرتادھرتا تھا۔اب تو مدتیں ہوئی ہیں ہم دم دیرینہ عدنان رحمت کو بیٹھے بیٹھے اچانک کیا ہوا کہ فرمانے لگے ون ڈے کرکٹ سیریز شروع ہورہی ہے۔ جناب عمران خان سے روزانہ کی بنیاد پر تبصرے اورتجزیے لکھوائے جائیں ۔ہماری نیوز سروس انٹرنیوز کانام عالمی سطح پر نمایاں ہوجائے گا۔ اس کالم نگار کا خیال تھا کہ خان صاحب سے بات کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔فون کیا اس وقت کے عمران بھائی نے کہا فوراًآجاؤ انہیں منصوبے کی تفصیلات بتائیں۔ان دنوں یہ کالم نگاراُس گروپ کو محافظ تھا ۔اس لیے کسی سے درخواست نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نوائے وقت کوپیش کش بھجوائی مذاکرات ہوئے جناب مجید نظامی نے 5 لاکھ روپے میں ون ڈے سیریز کے حقوق حاصل کرلیے۔ سیریزختم ہونے پر خاکسارخود لاہور نوائے وقت پہنچا جہاں اکاونٹنٹ حاکم علی چودھری ہوتے تھے انہیں بتایا کہ 5 لاکھ روپے رقم اداکردیں چونکہ پرانی جان پہچان اورشناسائی تھی موصوف نے چائے پانی سے تواضع کی پرانی باتیں تازہ کیں کہ اسی اثنا میں بتایاگیا کہ عارف صاحب کی بات عمران خان سے ہوگئی ہے کوئی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ اسی دوران عمران خان کی کال اس کالم نگار کے فون پر آگئی جو بتارہے تھے،عارف نے رقم معاف کرالی ہے، اس لیے یہاں سے 5 لاکھ روپے کی وصولی بھول جائو جس پر اس کالم نگارنے کہا کہ آپ اپنی رقم معاف کرسکتے ہیں لیکن ہمارے حصے کی رقم کون دے گا۔ عمران خان نے مسکراتے ہوئے کہا 'یارڈالروں سے رقم کاٹ لینا اب بنیانہ بنوں اس طرح یہ معاملہ نمٹ گیا۔عام طور جناب نظامی صاحب کو جز رس سمجھا جاتا ہے جو شاید وہ تھے بھی لیکن خبر اخبار اور جدید ٹیکنالوجی بارے وہ شاہ خرچ تھے۔سوچتا ہوں کہاں کہاں مرشد کو یاد کرتا رہوں گا۔