مجید نظامی نے شب قدر کو دار فانی سے کوچ کیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
ہم آج گوہر یگانہ و یک دانہ کی برسی منا رہے ہیں۔ان کو ہم سے بچھڑے آج چھ سال ہوگئے۔ہرسال ان کی برسی کا اہتمام برٰ عقیدت و احترام سے کیا جاتا رہا۔ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں ان کے چاہنے والے ہدیہ عقیدت پیش کرنے جمع ہوجاتے ،ملک بھر میں دعائیہ اجتماعات کا انعقاد ہوتا۔مگر آج کرونا کے باعث مقامی قومی اور عالمی سطح پر جمود کا شکار ہے۔لہٰذا اس مرتبہ کوئی تقریب اور اجتماع تو نہیں ہوگا البتہ ہم گھروں میں ان کے ایثال ثواب کیلئے دع گو ہونگے اور انکی یادیں تازہ کرسکیں گے۔وہ بلا شبہ گوہر دانہ تھے
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ
یہ انسان کے اندر کی کیفیت ہوتی ہے کہ کبھی لمحے صدیوں پر محیط ہوجاتے ہیں اور کبھی صدیاں لمحوں میں سمٹ جاتی ہیں۔میری اقبال ؒ اور قائد کے سچے پیروکار جناب مجید نظامی سے برسوں سے شناسائی تھی،پھر قربت حاصل ہوئی اور وہ قربت بھی کیا کمال کی قربت تھی۔ایک طرح کی دل سے دل کو راہ ہوگئی تھی۔نماز جمعہ نوائے وقت میں مسجد میں ادا کرنا میرا کئی سال تک معمول رہا۔میں نماز سے عموماً ایک سوا ایک گھنٹہ پہلے آجاتا۔کبھی وہ مجھے فون کرا کے جمعہ کے دن کے علاوہ بھی بلا لیتے تھے ۔نظامی صاحب کی ہدایت کے مطابق استقبالیہ سے میری آمد کی اطلاع نظامی صاحب کو کردی جاتی تھی۔میں تیسری منزل پر پہنچتا تو انکا کارِ خاص منیرمیرا انتظار کررہا ہوتا اور مجھے وہ نظامی صاحب کے پاس لے جاتاتھا۔عموماً حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہوتی اور وہ سیاست میں تبدیلی کے بارے میں ستاروں کی روشنی میں استفسار کرتے تھے۔ان کو کشمیر کی آزادی سے خصوصی لگائو تھا۔ انہوں نے کئی بار پوچھاکہ وٹو صاحب کشمیر کی آزادی کے بارے میں آپکے ستارے کیا کہتے ہیں؟۔میں ستاروں کی روشنی میں مایوسی کا اظہار کرتا تو وہ کہتے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کبھی نہ کبھی کشمیریوں کا خون اپنا رنگ ضرور دکھائے گا اور وہ آزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنیں گے۔اس روز ہی در اصل تکمیل پاکستان ہوگی۔ ایسی گفتگو کے دوران نماز کا وقت ہوجاتا، میں انکے ساتھ اوپر مسجد چلا جاتا۔یہ معمولات کئی سال جاری رہے۔آج مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ تمام کچھ ایک پل میں گزر گیاجبکہ ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے آج چھ سال ہوئے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے صدیوں پہلے بچھڑ گئے تھے۔یہ ۶سال ان کی یاد میں لمحہ لمحہ درد اور کرب میں گزرے ہیں۔میں نوائے وقت دفتر کا رُخ کرتا ہوں تو انکی یاد میں آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں۔ میں نے مجید نظامی کو کبھی کسی کے ساتھ بھی تلخ لہجے میں بات کرتے نہیں سنا۔مگر بھارت کے کشمیریوں پر ظلم وجبر پر تلملا اُٹھتے تھے۔نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی بات کرے تو غضب ناک ہوجایا کرتے اورقائد و اقبال کی شان میں کوئی گستاخی کرے تو آپے سے باہر ہوجاتے۔ اس حوالے سے مجھے یہ واقعہ آج پھر یاد آرہا ہے۔کسی نے اطلاع دی کہ تحریک آزادی پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک سکھ دانشور کو لیکچر کیلئے مدعو کیا گیا ہے۔ایک نوجوان لندن سے آکسفورڈ کیلئے بڑے شوق سے لیکچر سننے کیلئے روانہ ہوا۔لوگ جوق در جوق ہال میں داخل ہورہے تھے۔اس نوجوان کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ مہمان کے سٹیج پر آنے تک ہال بھر چکا تھا۔ حاظرین ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے۔ لیکچر جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا سکھ دانشور پٹڑی سے اترتا جارہاتھا۔ اس نے پاکستان کیخلاف بات کی اور قائد اعظم کی ہرزہ سرائی کی تو لندن سے آکسفورڈ آنیوالا نوجوان کھڑا ہوگیااور چلاتے ہوئے شدید غصے میں کہا۔’’اوئے سکھا! بکواس بند کر‘‘اس پر ہال میں سناٹا چھا گیا۔ہر کسی کی نظریں اس نوجوان پر جم گئیں۔یہ نوجوان مجید نظامی صاحب تھے۔جن کے قریب سے تحریک آزادی کے دوران انکے دوست کی شہادت گزری تھی۔ ایک جلوس کے دوران ایک عمارت سے مسلمانوں کے دشمنوں نے پتھرائو کیا۔ایک اینٹ نظامی صاحب کے ساتھ موجود کلاس فیلو محمد مالک کے سر پر لگی۔وہ شدید زخمی ہوگئے۔ انکو نظامی صاحب نے سنبھالا۔محمد مالک نے نظامی صاحب کی بانہوں میں دم توڑا۔نظامی صاحب نے اپنی تحریر اور تقریر میںکئی بار کہا کہ یہ اینٹ مجھے بھی لگ سکتی تھی۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقریبات میں نظامی صاحب مجھے بلوایا کرتے تھے،انکی انکساری اور بانیان پاکستان کے ساتھ محبت اور الفت کا یہ عالم تھا کہ ایک تقریب کے دوران کسی مقررنے کہہ دیا کہ مجید نظامی صاحب علامہ اقبال اورقائد اعظم کے جاں نشین ہیں تو نظامی صاحب فوراً اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور اس مقررکی تصیح کراتے ہوئے کہا کہ میں اقبالؒ اور قائدؒ کا جاں نشین نہیں ان کا پیروکار ہوں۔اللہ انکی تربت پر شبنم افشانی کرے۔