لیلۃ القدر کے مسافر

اِنّٰ اللّٰہ لاَیُغَیِرُ مَا یِقَو’مِ حتَیّٰ یفَتِرُو’ امَا بِاَنفُسِہِم’ o
(بے شک اللہ کسی قوم سے نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے ) سورۃ الرعد آیت 11 پارہ 13۔
بے شک قرآن انتہائی مبارک ساعتوں میں اترا۔ ایسی مبارک ساعتیں جن میں صرف ایک رات اللہ جل جلالہ کے آگے رجوع کرنے کا اجر ایک ہزار سال کی مسلسل عبادت سے بھی زیادہ ہے۔ یہ قرآن نوع انسانی کیلئے رب العزت کا ایک ایسا پیام لایا جو انسانیت کیلئے اعلیٰ و ارفع ہی نہیں نوع انسانی کے تمام تر مسائل اور مشکلات کا حل ہے۔ اس مبارک رات کا پہلا مسافر وہ قرآن تھا جو نبی اکرم ؐ کے قلب پر اترا اور نوع انسانی کو اشرف ہونے کا طریق بتا گیا۔ اس رات کی فضیلت وبرکات کیلئے ایک کتاب تو کیا پورا دیوان، پورا مکتب بھی ناکافی ہے۔ اس رات کی منزل جسے مل جائے وہ دنیا فانی و آخرت میں کامیاب و کامران کہلاتا ہے۔ اسی رات کی مبارک ساعتوں میں کلمہ کے نام پر بننے والے پاکستان کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اور یہی وہ مبارک ساعتیں تھیں جن میں چھ سال پیشتر آبروئے صحافت مرشد مجید نظامی کے روح سفر آخرت کو سدھاری۔ جناب مجید نظامی برکات علیہ ایک ایسی ہستی تھے جنھوں نے ہمیشہ اسلام کے خلاف ہونے والی معمولی سے جنبش کو بھی اپنے زور قلم سے رد کیا۔ فلسطین ہو یا روہنکیا، افغانستان ہو یا کشمیر، ایتھوپیا کے مظلوم مسلمان ہوں یا بوسنیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، آپ اور آپ کے رفقائے کرام نے حق ہی نہیں لکھا بلکہ حق کیلئے جدوجہد بھی کی۔ صحافت کو آزاد رکھنے کا عزم ہمیشہ دل میں موجزن پاتے تھے۔ ایوب خان ہو، ضیاء الحق ہو یا کوئی بھی حکمران، اس کی آمرانہ روش کے سامنے چٹان کی مانند کھڑے ہو جانا ان کا طریقہ تھا اور اس میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے۔ اشتہارات کی بندش ہو یا اخبارات کی ترسیل پر کوئی رکاوٹ، حق کا ساتھ کبھی نہ چھوڑا۔ آج پوری شدت سے لیلۃ القدر کے اس مسافر کی یاد آتی ہے جن کی چھاؤں میں ہم نے کشمیر کے جھنڈے کو بھی بلند رکھا اور پاکستان کو قحط زدہ ہونے سے بچانے کیلئے پانی کی کامیاب جنگ بھی لڑی۔ کالاباغ ڈیم پر نوائے وقت کے ذریعے ریفرنڈم کروا کر پاکستان مخالف قوتوں کو آئینہ دکھانا اسی مرد مجاہد کا کارنامہ تھا۔انکے اسلوب میں قرآن پاک کی اس آیت کی جھلک نظر آتی ہے جس میں اللہ جل جلالہ نے فرمایا"اور مسلمانوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے"۔ ان کا یہ بھروسہ آخری دم تک نہ ٹوٹا۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں قلم کے سپاہی پیدا کئے۔ اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان میں قائد صحافت کا یہ جذبہ قائم و دائم رکھے۔ آمین! مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب میاں نواز شریف کے دور میں حکومت اور روزنامہ جنگ کے درمیان ٹھنی تھی۔ میاں صاحب کے رابطہ کرنے پر آبروئے صحافت کا دو ٹوک جواب تھا۔ جس ہتھیار سے آپ جنگ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، وہی ہتھیار کل ہم پر بھی استعمال ہو سکتاہے۔ ان کے زیر سایہ تمام اخبارات نے کردار ادا کیا تھا۔ ان کی تحریروں میں ٹھوس حقائق کی ترجمانی ہوتی۔ قانون کی حکمرانی کو پاکستان کیلئے لازم قرار دیتے تھے۔ مارشل لاء کے خلاف ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ آج دورِ صحافت میں وہ دم خم نظر نہیں آتا جو آبروئے صحافت مجید نظامی کے زمانہ میں عروج پر تھا۔ نوائے وقت گروپ کے ہی نہیں دیگر اخبارات اور جرائد انکی نیابت میں آمرانہ ہتھکنڈوں کے درمیان سیسہ پلائی دیوار بن کر آمرانہ ہتھکنڈوں کے حملوں کو پسپا کر دیتے تھے۔ کاش ان سے فیض پانے والے قلم کاروں میں وہی جوش و جذبہ سلامت رہے۔لیلۃ القدر کی مبارک ساعتوں میں ہمیں اس کے حضور تہہ دل سے دعا مانگی چاہیے اور عہد کرنا چاہیے کہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکامات کی بجاآوری کیلئے کوئی امر مانع نہ رکھیں گے۔اپنے قول وفعل میں تضاد نہ رکھیں گے۔ اللہ جل جلالہ بہت بلندی والا ہے۔ وہ سچا بادشاہ ہے، اس عزت والے عرش کے مالک کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا حکم ہے کہ مسلمانوں کو صرف اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اس کا وعدہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو اور دوں گا۔ اس کے احکامات پر عمل کرکے ہم وطن عزیز کو یقینا ایک عظیم قوت بنا سکتے ہیں۔اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین!

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...