رمضان کے آخری عشرے 27 رمضان قیام پاکستان کے دن آبروئے صحافت نظریہ پاکستان کے علمبردار ڈاکٹر مجید نظامی 2014ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے اور پاکستان کے جاننے والوں اور تمام مکاتب فکر اور شعبہ زندگی کے لئے بڑی افسوسناک خبر تھی۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بعد پچھلی صدی کی بڑی شخصیت تھی، ان کے اوصاف کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے سول اور ملٹری آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا پاکستان کی نظریاتی سیاست کے امین تھے۔
ان کو کوئی حکمران خرید نہ سکا۔ انہوں نے ہمیشہ جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ حمید نظامی مرحوم کی زندگی اور بالخصوص ان کی وفات کے بعد اپنا کردار احسن طریقہ سے نبھایا وہ تحریک پاکستان کے کارکن بھی رہے اور نوائے وقت کے مدیر کی حیثیت سے اپنی قلم اور آواز میں جنبش نہ آنے دی۔ نوائے وقت کو آخر وقت تک پاکستان سے محبت کرنے والوں کا اخبار بنایا تکمیل پاکستان اور کشمیر بنے گا پاکستان تحریک آزادی کشمیر کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے رکھا۔ قائداعظم کی طرح ان کی شدید خواہش تھی کہ کشمیر آزاد ہو اور پاکستان کا حصہ بنے۔
مقبوضہ کشمیر کی آل پارٹی حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے قومی راہنما ان سے رابطہ میں رہتے تھے اور رہنمائی لیتے تھے۔ نوائے وقت کے ریلیف فنڈ سے کشمیری ضرورت مندوں کی حمایت بھی کرتے تھے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ روز آتے فرداً فرداً ہر ایک سے ملاقات کرتے ، بہت کم بولتے پہلے اگلے کی بات سنتے پھر جواب دیتے۔ تمام ملنے والوں سے خوشگوار موڈ میں مسکرا کر ملتے۔ اپنے ہم عمر اور تحریکی ساتھیوں سے ایک دو جملوں میں مذاق بھی کر لیتے نہ بکے نہ جھکے نہ کوئی اُن کی قیمت لگا سکا ۔ پہاڑ کی طرح مضبوط ادارے کے مالک تھے۔ ان کا فائدہ نقصان نظریہ پاکستان ، پاکستان کی بقا اور کشمیر کی آزادی سے منسلک تھا۔ اصولوں پر ترجیح ان کی زندگی میں ابھی ان کے ادارات ان کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ میں بطور کشمیر سنٹر لاہور ڈائریکٹر کی اُن سے بھرپور رہنمائی لیتا رہا۔ میں نے کالم نگاری شروع کی تو کشمیری راہنما مولانا محمد شفیع جوش کے ساتھ ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور نوائے وقت میں لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کو انہوں نے بڑی شفقت دی حوصلہ افزائی کی وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ان کی جانشین محترمہ رمیزہ نظامی ان کے ساتھی انکا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا بنایا ہوا ادارہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ، اب بھی احسن طریقہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان بھی آبروئے صحافت کے ایک سال بعد 23 رمضان 2015ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مجید نظامی اور سردار قیوم میں ایک قدر مشترک تھی دونوں عاشقان رسولؐ کے علاوہ سچے اور پکے پاکستانی تھے ۔ وہ چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ پورا پاکستان ان کا وطن پر سیاسی کارکن ان کا عزیز تھا۔ اپنے آپ کو برادری ازم سے دور رکھا وہ کئی بار آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم اور صدارتی کشمیر کمیٹی پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ مجید نظامی سے ملتے اور راہنمائی بھی لیتے۔ ہمہ جہد شخصیت تھے تربیت یافتہ مجاہد کا میاب سیاستدان ، بہترین حکمران اور انسان اور کئی کتابوں کے مصنف تھے وہ چودھری غلام عباس کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ بڑی پیشکش کے باوجود کبھی پاکستان کی سیاست میں حصہ نہ لیا لیکن پاکستان کی ضرورت پڑی تو بھرپور کردار ادا کیا۔ سردار قیوم نے جہاں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ دیا وہاں پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں نظریاتی لام بندی کی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹرمحمد مجید نظامی اور سردار عبدالقیوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔