سیانے کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اقتدار یعنی بادشاہی ہوتی ہے۔ جب انسان مسند شاہی پر فائز ہوتا ہے تو بڑے سے بڑے دشمن بھی وفا دار دوست بن جاتا ہے۔ دنیا چونکہ فریب اور دھوکہ دہی کا نام ہے اس لیے تو حضرت علی بن اب طالب نے فرمایا تھا کہ اے دنیا میں تجھے تین طلاقیں دیتا ہوں جیسے تین دفعہ طلاق دینے سے بیوی ھرام ہوجاتی ہے اسی طرح اے دنیا اور تیری چاہت بھی علی بن اب طالب پر حرام ہے۔ آفرین ہے اُن مقدس ہستیوں کی کہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اقتدار کے نشے کا شکار نہیں ہوئے تھے وہ عظیم لوگ بادشاہ بن کر نہیں بلکہ فقیر بن کر لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے رہے اور ہمارے آج کے اقتدار یافتہ لوگوں کے دلوں پر نہیں بلکہ دنیا داروں کی دنیاوی لذتوں پر حکومت کرتے ہیں اور یہی اس دنیا کا دستور ہے کہ جو جتنا طاقتور ہے اور جس کے پاس بڑا اقتدار ہے تو سب اسی کے ہو جائو نہ اصول اور نہ ہی کوئی ضابطہ ایسے لوگ ہر وقت دنیاوی جاہ و جلال کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں سے ان کو مفاد مل جائے۔ یہ چونکہ دنیا پرست لوگ ہوتے ہیں اس لیے ان کے ہاں اصول اور ضابطے کوئی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ جہاں سے بھی جس قدر مفاد حاصل ہوسکے یہ اقتدار کے پجاری ہر حال میں حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کو سیاسی طور پر بکاو گھوڑے کہا جاتا ہے۔ ویسے ہم جس وسیب اور علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اس علاقہ پر قسمت مہربان رہی ہے کیونکہ ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والے بڑے لوگ ہمیشہ بڑے اقتدار میں رہے ہیں۔ سردار فاروق احمد خان لغاری مرحوم ملک کے با اختیار صدر تھے لیکن جب انہوں نے محترمہ بینظر بھٹو شہید کی حکومت کو اپنے اقتدار کی لپیٹ میں لے کر ختم کردیا تو اسی دن سے سردار مرحوم کا سیاسی زوال شروع ہوا تھا۔ جس کا پہلا نشانہ بھی انہی کو بننا پڑا تھا کہ جس روز اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چوٹی کے صدر ہاؤس میں آکر سردار فاروق لغاری سے 58 بی ٹو کے خاتمہ کیلئے دستخط کرائے تھے اور یوں جنرل ضیا الحق کی ایجاد کی ہوئی ایک اور جبری بدعت کا خاتمہ کراکے صدر کو بے اختیار بنا دیا تھا۔ سردار فاروق خان لغاری چونکہ ایک غیور بلوچ سردار بھی تھے اس لیے بہت جلد انہوں نے از خود مستعفی ہوکر اپنی عزت بلوچ کو برقرار رکھا اور پھر بعد میں ملت پارٹی بھی کچھ عرصہ کیلئے بنائی لیکن وہ بڑی سیاسی پارٹی نہ بنا سکے جیسے ان کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی تھی کہ جس کے ثمرات سے آج بھٹو کی تیسری نسل بھی مستفید ہورہی ہے اور یوں ملت پارٹی کو ختم کردیا گیا کیونکہ اقتدار کی طاقت اس وقت جنرل مشرف کی وجہ سے چوہدری برادران کے پاس تھی پھر یوں ہواکہ یہ اقتدار بھی ختم ہوگیا اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی جس کے لیے بے نظیر بھٹو کو بڑی قربانی دینی پڑی اور یوں ملک کے اصل بادشاہ گروں نے آصف زرداری کو صدر بنا دیا پھر یوں ہوا کہ یہ اقتدار بھی خواب بن گیا اور پھر 2013 میں میاںنواز شریف ملک کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔(جاری ہے)
اور میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب لیکن میاں نوازشریف پہلے کی طرح اس دفعہ بھی اصل بادشاہ گروں سے الجھ پڑے اور یوںپونے چار سال بعد انہیں بھی اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے لیکن میاں شہباز شریف چونکہ اصل بادشاہ گروں سے الجھے تھے اس لیے نہ تو وہ قید ہوئے اور نہ ہی ان سے پنجاب کی حکمرانی چھینی گئی۔ لیکن 2018 کے الیکشن میں اقتدار کا نقشہ تبدیل کردیا گیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے محروم کرکے ایک نئی قیادت تحریک انصاف کی شکل میں عمران خان کو اقتدارکے اعلیٰ عہدے پر بٹھا دیا گیا پھر عمران خان کسی وجہ سے ہمارے وسیب کے ایک ایسے شخص پر مہربان ہوئے کہ جنہوں نے کبھی اعلیٰ اقتدار کے بارے میں سوچا بھی تھا لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے عزت اور اقتدار دیتا ہے جس کی مثال سردار عثمان بزدار پر سچی ثابت ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے تحریک انصاف کو زوال کے دنوںمیں اپنے دل سے لگائے رکھے اور اس پارٹی کے لیے نہ جانے کیا کچھ نہ کیا وہ اقتدار کے دنوں میں محروم ہوگئے اور وہ جو کہ جنہوں نے ایک دن بھی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہ کی وہ آج تحریک انصاف کے قائد کی وجہ سے اقتدار کی بلندیوں پر ہیں۔ یہیں سے اقتدار کے پجاریوںکو سوچنا چاہیے کہ عزت اور بادشاہی کے فیصلے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پورے ملک کی سب سے بڑی وزارت اعلیٰ ہے لیکن دیکھ لیں قدرت نے کسی طرح سے دو سالوں سے سردار عثمان بزدار کو اتنا بڑا اقتدار دیا ہوا ہے اور کسی کی نہ سننے والا عمران خان جیسا وزیراعظم بھی بے بس ہے اور ان کے دماغ میں نہ جانے کیا کچھ آتا ہے۔ لیکن وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے اس لیے کہ ایک بڑی طاقت نے انہیں ابھی بے بس کیا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے اعلیٰ اقتدار کی وجہ سے گزشتہ دنوں دورہ ڈیرہ غازیخان کے موقع پر تونسہ اور وہوا کے چند با اثر مقامی سیاسی لوگوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے چونکہ ایسے لوگوں کی سب سے بڑی کمزوری اقتدار اور صرف اقتدار ہوا کرتی ہے اس لیے انہوں نے اپنے تمام اصولوں کو طاق نسیاں پر رکھا اور اقتدار کی اندھی طاقت کے سامنے فوراً سجدہ ریز ہوگئے۔ حالانکہ یہی لوگ پہلے بھی درجنوں سیاسی ٹھکانے تبدیل کرچکے ہیں کیونکہ ان لوگوں کا اصل مسئلہ اقتدار ہی ہوتا ہے اصول اور ضابطے ان کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اب جونہی تحریک انصاف کی سیاسی طاقت ختم ہوگی تو ایسے لوگ نئے اقتدار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔