یہ تحریر میری نہیں ہے ،ڈاکٹر محمود شوکت نے مجھے فون پر ایک واقعہ سنایا اور کہنے لگے میں نے اس کے اوپر پورا یک آرٹیکل تحریر کر لیا ہے۔میں نے کہا آپ یہ مجھے واٹس ایپ کردیں میں اسے اپنے کالم میں جگہ دے دیتا ہوں تاکہ یہ واقعہ جو ایک لحاظ سے روشن مثال اور مینارہ نور کے مترادف ہے یہ قارئین کے وسیع حلقے تک پہنچ سکے ۔واقعے کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ منگولیا میں ایک کورونا کی خاتون مریضہ کو ایمبولنس میں ڈالا گیا،وہ ہسپتال تک پہنچنے سے پہلے سردی کی وجہ سے ٹھٹھر کر مرگئی۔اس کی لاش کی ویڈیو وائرل ہوگئی اور موت کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ برفیلے موسم میں خاتون کو گھر کے صرف اسی کے کپڑوں سے اٹھا کر ایمبولنس میں ڈال دیا گیا تھا۔کسی نے بھی نہ سوچا کہ باہر درجہ حرارت کس قدر گرا ہوا ہے اور مریضہ کو کئی کمبلوں کے اندر لپیٹا جانا چاہئے تھا ۔سنگین غفلت کی وجہ سے مریضہ کا جسم برفانی موسم میں خود برف بن گیا تھا۔
غفلت کا یہ مظاہرہ حکومت کے کسی اہلکار نے نہیں کیا تھا بلکہ ایمبولنس کے کارندوں کی غلطی کی وجہ سے اس مریضہ کی موت واقع ہوئی لیکن عوام اس ویڈیو پر بلبلا اٹھے ۔مظاہرے ہوئے حکومت کے خلاف چند نعرے لگے اور منگولیا کے وزیر اعظم نے مریضہ کی موت کی ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے اپنے منصب سے خود استعفیٰ دے دیا ۔ اب اس واقعہ کو ڈاکٹر محمود شوکت نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک وڈیودیکھی اس نے ایک طرف آنسوئوں کا سیلاب جاری کر دیا اور دوسری طرف شرم اور ندامت کے باعث اپنی ہی نگاہوں میں ہمیں بے وقعت کر دیا۔
یہ منگولیا یعنی چنگیز اور ہلاکو کے ملک کے وزیراعظم کا واقعہ ہے جو شاید تاقیامت اپنی خونریزی اور بربریت کی بنیاد پر ہمیشہ کیلئے تہذیب کی ضد کے طور پر ہی جانا جائے گا۔ اسی چنگیز خان کی اولاد نے یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی تعلیم اور تہذیب و تمدن آپ کو ایک پہچان دیتے ہیں اور یہ پہچان آپ کیلئے ایک اچھے انسان ہونے کی نوید ہوتی ہے۔
وزیراعظم منگولیا نے ایک ایسے معاملے پر احساس ندامت کے باعث استعفیٰ دے دیا جو ان سے براہ راست کوئی تعلق نہ رکھتا تھا۔ شاید ہمارے جیسے معاشرے میں تو اس کو کبھی ایک جرم بھی نہ سمجھا جاتا اگر اس کو میڈیا کی تشہیر کے نتیجے میں جرم مان بھی لیا جاتا تو سارا نزلہ ایمبولینس کے ڈرائیور یا کسی نرس کو وقتی طور پر معطل کر کے ایک انکوائری کا حکم دے دیا جاتا اور پھر یہ انکوائری ایک بہت بڑے قبرستان میں دیگر انکوائریوں کے ہمراہ دفن ہو جاتی۔
واقعہ یوں ہے کہ رات کے پچھلے پہر ایک خاتون کو بظاہر بہت شائستہ اور با عزت طریقے سے ایک ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔منگولیا جیسے پسماندہ ملک میں جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ موسم کے لحاظ سے مذکورہ عورت کو جو لباس پہنایا گیا ہے وہ اس سرد موسم کی مناسبت سے ناکافی ہے اور اس ’’انسانیت سوز‘‘ عمل کے خلاف پوری قوم سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔
کیا تعریف کی جائے اس قوم کے فرزندوں کی جو پہچانے تو بربریت کے حوالے سے جاتے ہیں لیکن چھو لیتے ہیں انسانیت کی معراج کو اور کوئی موزوں الفاظ میسر نہیں اس وزیراعظم کی تعریف کیلئے جو خود کو لوگوں کے سامنے ایک مجرم کے طور پر پیش کرتا ہے اور تمام واقعہ کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے استعفیٰ دے دیتا ہے۔ اس موقع پر ان کے چہرے پر عیاں شرمندگی ان کی انسانیت اور ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہوتے ہیں عوامی نمائندے راہبر اور رہنما۔
منگولیا آج کل کے مغربی ممالک کی طرح نہیں یہ ایک پسماندہ ملک ہے جس کے موسمی حالات بہت سخت ہیں۔ معاشی مواقع بھی کم ہیں اور لوگ نسبتاً مشکل زندگی گزار رہے ہیں ان تمام غیر موافق حالات کے باوجود ان میں انسان دوستی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے اور خودغرضی اور غیر معاشرتی رویئے مفقود ہیں۔
ہم نے اسلام کو صرف بدتی عبادات تک محدود کر دیا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے جب ہمارے سیاستدان علما اور افسر شاہی کے نمائندے بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہماری بددیانتی عدالت میں ثابت کریں اور جب تک ثابت نہ کریں ہم کچھ نہ مانیں گے۔ اخلاقیات اور ذاتی شرمندگی کا تو کوئی تصور ہمارے معاشرے میں ہے ہی نہیں اور بڑے لوگوں کی رشوت اور بدعنوانیوں کو ایک بد دیانت معاشرے اور عدالتی نظام میں ثابت کرنا یقیناً ناممکن ہے۔ باکردار افراد تو صرف الزام لگ جانے کو ہی جرم تصور کرتے ہیں اور لوگ اپنی عزت کی خاطر بڑے بڑے فیصلے کر لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو کسی اہم آدمی کا صرف عدالت میں پیش ہو جانا ہی ایک بہت بڑی خبر بن جاتی ہے اور اس کو اس شخص کی ایک بڑائی بیان کیا جاتا ہے گو کہ اس پر فوجداری نوعیت کے دھوکہ دہی کے الزامات ہی کیوں نہ ہوں۔
برطانیہ، جرمنی، اسرائیل، جاپان سب کے حکمران ملک کی خدمت میں ہی عظمت تلاش کرتے ہیں لیکن اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کا مصرف اور صرف دنیاوی مال و متاع کا حصول اور شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے۔
ہمارے اطراف ظلم اور ناانصافی کا راج ہے ایسے میں امن استحکام اور ترقی کا خواب یقیناً ایک سراب ہے یہ صرف حکمرانوں کے دل افروز نعروں میں ہے ۔
ڈاکٹر محمود شوکت کی رائے سے میں سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ اسلام تو دور کی بات ہے ہم روز آئین،جمہوریت اور مہذب ہونے کی باتیں کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں چینی مافیا اربوں کا ٹیکا لگاتا ہے،بجلی مافیا کھربوں کا ٹیکا لگاتا ہے۔آٹا مافیا لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین لیتا ہے۔پی آئی اے کے سنگین حادثے رونما ہوتے ہیں۔ریلوے کے پے در پے حادثے ہوتے ہیں مگر ہم تحقیقات کا حکم دے کر اپنے عوام کو بہلاتے رہے ہیں۔
کوئی کہتا ہے ہوائی حادثہ جعلی ڈگریاں رکھنے والے پائلٹوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔کوئی کہتا ہے سیکڑوں آدمی کانٹے والے کی غلطی کی وجہ سے مر جاتے ہیں ۔بھارت کے لال بہادر شاستری وہاں وزیر اعظم رہے،مگر اس سے پہلے تو وزیر ریلوے تھے کہ ایک حادثہ پیش آگیا،اس حادثے میں ان کی براہ راست کوئی ذمہ داری نہیں تھی لیکن انہوں نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔مجال ہے ہمارے ہاں حکومتی کارندے کسی لوٹ مار کسی حادثے کسی فرار کی ذمہ داری خود قبول کرنے کو تیار ہوں۔
ہمارے حکمران سارا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہیں اور خود حکومت کے مزے اڑاتے ہیں۔منگولیا کے وزیر اعظم نے ایک حادثے پر استعفٰی دے کر ہمارے لیے ایک مثال قائم کی ہے کہ شاید ہم میں سے بھی کسی کا ضمیر جاگے۔
میں نے انٹرنیٹ پر ریسرچ کی تو پتا چلا کہ صرف منگولین وزیر اعظم نے نہیں بلکہ پوری کابینہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔کیا ایسی مثال کسی اور ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں دیکھی جاسکتی ہے۔
٭…٭…٭