فلسطین پر اسرائیلی مظالم اورمسلم ممالک کی خاموشی

May 20, 2021

9مئی کو اچانک اسرائیلی افواج نے بیت المقدس میں مسجد اقصٰی میں عبادت میں مصروف نمازیوں پر وحشیانہ تشدد شروع کردیا ا ور مظالم کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے غزہ پر بمباری اور سینکڑوں معصوم فلسطینی بچوں‘ بزرگوں سمیت عام شہریوں کی شہادتوں کا موجب بنا اور اسرائیلی مظالم کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور ان کی ڈھٹائی دیکھیں کہ عالمی میڈیا کے دفاتر جس عمارت میں قائم تھے اسے میزائل سے تباہ کردیا تاکہ انکی فرعونیت دنیا پر آشکار نہ ہو۔فلسطینیوں پر مظالم پر دنیائے اسلام مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں او آئی سی کا اجلاس بھی منافقت اور دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسی طرح 43ممالک کی اسلامی فوج تو میرا خیال ہے جھولیاں پھیلا کر اسرائیل کو بددعائیں دینے کیلئے تشکیل دی گئی ہے۔
مسلمانوں کی (امن پسندی) بزدلی سے کفار اچھی طرح واقف ہیں اسی لئے انہوں نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور اقوام متحدہ امریکہ کے لے پالک بچے کی مانند ہے جسے امریکہ اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے اور ویسے بھی ’’ویٹو پاور‘‘ کا طریقہ کار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان چند ممالک کی مرضی کے علاوہ دنیا میں کسی مظلوم کے حق میںقرارداد تک پاس نہیں ہوسکتی یہ الگ بات ہے کہ قرارداد پاس ہونے کے بعد بھی کیا ہوگا؟ جب مسلم حکمران ہی عیاش و بزدل ہیں۔
فلسطینی مظلوم عوام کسی غیرت مند‘ بہادر اور جذبہ جہاد سے سرشار اسلامی لیڈر کی منتظر ہے جو انہیں اسرائیلی مظالم سے نجات دلاسکے لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے اکثر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے امریکہ سمیت یورپی ممالک کی منشاء کے خلاف کوئی کام کیا تو وہ انہیں اقتدار سے ہٹادیں گے یعنی کہ ان کی نظر میں نعوذباﷲ اقتدار اعلیٰ امریکہ کے پاس ہے اور وہ ہی اپنی مرضی سے اسلامی ممالک میں حکمرانوں کو مناصب عطا کرتا ہے اور اگر امریکہ کو ناراض کردیا گیا اور اسرائیل کے خلاف کو ئی سخت الفاظ تک کہہ دیئے تو اقتدار سے محروم ہونا پڑے گا تو ایسی صورت میں عام مسلمانوں کی جانب سے ایسے حکمرانوں سے اسرائیل کیخلاف کارروائی کی امید لگا لینا بیوقوفی ہے جو اسرائیل کیخلاف بیان دینے کیلئے بھی تیار نہیں۔
دولت مند اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا اقتدار امریکہ کی تمام باتیں مان لینے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد بھی محفوظ نہیں اور امریکہ ایک ایک کرکے ان ممالک میں نہ صرف اقتدار میں تبدیلی لارہا ہے بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے خانہ جنگی پیدا کرکے انہیں مکمل تباہ و برباد کررہا ہے اور ان کے تمام وسائل پر قابض ہوتا چلا جارہا ہے۔
اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی دولت کا زیادہ حصہ امریکہ و یورپ میں بڑی بڑی کمپنیوں اور کاروبار کی شکل میں موجود ہے اور ان اکثریت حکمرانوں کے معاشی مفادات بھی امریکہ و یورپ ہی سے ہیں اس لئے بھی وہ ان ممالک کی مرضی کے خلاف کو ئی با ت کرنے کو قطعی تیار نہیں۔دولت مند اسلامی ممالک فلسطینیوں کی اس قدر مدد کرتے ہیں کہ انہیں اپنے ممالک میں رہائش و ملازمت دیکر اسرائیلی مظالم سے نجات دلا دیتے ہیں یعنی نہ تو فلسطینی وہاں ہونگے ا ور نہ ہی اسرائیلی مظالم کا نشانہ بنیں گے۔ اسی طرز عمل کے باعث ہی اسرائیل مسلسل اپنی حدود میں توسیع کرتا چلا جارہا ہے اور فلسطینی عوام کو اسرائیلی مظالم سے اﷲ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔
مسلم حکمران اب بھی ہوش کے ناخن لیںاور مرحلہ وار اپنی دولت اور سرمایہ امریکہ و یورپ سے نکا ل کر باصلاحیت اور قدرتی وسائل سے مالا مال غریب اسلامی ممالک میں خرچ کریں جہاں ان کا سرمایہ بھی محفوظ ہوگا اور مسلمانوں کو اس دولت سے طاقت حاصل ہوگی اور چند سالوں میں یہ غریب مسلم ممالک معاشی استحکام حاصل کرلیں گے جس سے مستقبل میں امریکہ و یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکے گی۔ فی الحال تو حالت یہ ہے کہ دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران اپنے اقتدار و سرمائے کو بچانے کیلئے امریکہ و یورپ کے مرہون منت ہیں تو غریب اسلامی ممالک امریکہ و یورپ کے مقروض ہونے کی وجہ سے خاموشی رہنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ صورتحال میں زیادہ ذمہ داری تو دولت مند اسلامی ممالک پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور مرحلہ وار اپنی سرمایہ کاری و دولت منتقلی امریکہ و یورپ کے بجائے غریب اسلامی ممالک کی جانب موڑ دیں تاکہ یہ غریب اسلامی ممالک یورپ و امریکہ کا قرض ختم کرلیں تو یہی ممالک مستقبل میں دنیا بھر میں اسلام کی موثر ترین آواز ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسلامی سربراہی کانفرنس میں اس معاملے پر موثر حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہئے کہ اقوام متحدہ کا کردار اگر مظلوم مسلمانوں کیلئے اسی طرح کا رہتا ہے تو تمام اسلامی ممالک اقوام متحدہ کو ایک ساتھ خیرباد کہہ دیں کیونکہ اقوام متحدہ کے قیام سے لیکر اب تک یہی ہوا ہے کہ جہاں غیر مسلموں کو مسلمانوں سے آزادی درکار ہے وہاں راتوں رات متفقہ قرارداد منظور کراکر چند دنوں میں اس پر مکمل عملدرآمد کرایا جاتا ہے جیسا کہ مشرقی تیمور اور سوڈان میں کیا گیا لیکن کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد عملدآمد کی منتظر ہے اور جہاں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مظالم سے چھٹکارا اور آزادی درکار ہوتی ہے وہاں اقوام متحدہ کا کردار ایسا ہوتا ہے جیسے یہ ادارہ موجود تک نہ ہو۔اس طرز عمل کے باوجود اقوام متحدہ میں مزید شریک رہنا مسلم ممالک کیلئے فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتا رہے ۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں