پاکستانی سیاست کا ہمیشہ سے یہ کلچر رہا ہے کہ الیکشن جیت کر حکومت بنانے والی جماعت کا پہلا کام پچھلی حکومت کی خراب پالیسیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا اور معیشت کی تباہی کا تذکرہ کرنا ہوتا ہے یعنی اپنی کارکردگی دکھانی نہیں اور اپوزیشن پرمسلسل تنقید کرتے رہنا۔پی ٹی آئی حکومت نے بھی اس سیاسی جہیز کو قبول کیا اور سابق وزیر اعظم نے ابتدائی دنوں میں فرمایا تھا کہ مشکلوں سے گزرنے کے بعد ہی قومیں تشکیل پاتی ہیں۔ بس وہ یہ بتانا بھول گئے کہ یہ مشکل کے دن ساڑھے تین سال کے عرصے تک محیط ہوں گے۔قوم چیختی رہی، پستی رہی بلکہ بلکتی رہی اور پی ٹی آئی کی قیادت ٹک ٹاک لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارتی رہی۔اس کی تازہ مثال عامر لیاقت ہیں۔ساڑھے تین سال حکمرانوں نے ساری دنیا کی خاک چھانی مگر عوام کے درد کا ساماں نہ ہو سکا۔اس دوران اپوزیشن خلائی مخلوق اور سیلیکٹرز کے طعنے دیتی رہی اور کبھی کبھار اپوزیشن کے بیانات میں ایسے محکمہ زراعت کا بھی ذکر ملتا ہے کہ جس کا زراعت سے بالکل بھی کوئی تعلق نہیں۔ایک پیج کا بیانیہ پی ٹی آئی کی طاقت اورڈھال تھا ۔پھرآندھی چلی اور وقت پلٹا ،کرسی والا زمین پر اور خاک والا تخت نشین ہوا۔توانائی کا چشمہ خشک ہوگیا اور صفحہ پھٹ گیا۔یہ کیسے ممکن ہوا؟۔ایک مثال سے سمجھاتا ہوں جیسا کہ سمندر میں بڑی مچھلیوں کے ساتھ چھوٹی مچھلیاں بھی ہوتی ہیں ۔چھوٹی مچھلی کو ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ کب بڑی مچھلی اُس کو کھا جائے۔اس موقع پر اگر چھوٹی مچھلی سمندر سے یہ سوال کرے کہ بڑی مچھلیاں کب تک ہمیں کھاتی رہیں گی؟ تو یقیناً سمندر کا جواب ہوگا کہ جب تک چھوٹی مچھلی اپنے آپ کو اتنا بڑھا نہ کر لے کہ وہ بڑی مچھلی کے منہ میں نہ آ سکے ۔صفحہ پھٹنے کے بعد اپوزیشن بڑی مچھلی بن گئی اور آتے ہی توشہ خانہ،ہیلی کاپٹر سکینڈل اور عزیزی فرح عرف گوگی کو خبروں کی زینت بنایا گیا جبکہ اقتدار کی بانسری پر معیشت کی بربادی کا پرانا گیت لگا دیا گیا۔ مگر یہ کیا کہ اب سمندر میں سب بڑی مچھلیاں ہی رہ گئی ؟۔ جب بڑی مچھلیوں کے کھانے کو چھوٹی مچھلی نہیں رہی تو حکومت اور اپوزیشن نے نسبتاً حساس بڑی مچھلیوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔کبھی جانور کونیوٹرل کہا گیا، کبھی میر جعفر کہا گیا کبھی میر صادق کا نام آیا،کبھی رات کو جاگنے پر اعتراض ہوا،کبھی سوموٹو زیر بحث آیا،کبھی کھڈے لائن کا ذکر ہوا،کبھی بے فیض کا نعرہ بلند ہوا،کبھی خاموشی پر بات ہوئی۔وہ سلسلہ جو خلائی مخلوق سے شروع ہو کر سیلیکٹرزسے ہوتے ہوئے محکمہ زراعت تک پہنچ کر کہیں گم ہوگیا تھا ایک بار پھر سے عمران خان نے اس کو گنگنانا شروع کر دیا ہے۔باشعور لوگ عمران خان سے پوچھتے ہیں کہ نواز شریف کے جی ٹی روڈ بیانیے اور میر جعفر بیانیے میں کیا فرق ہے؟۔وہ بھی اقتدار سے محرومی پر سیخ پا تھے اور آپ بھی تخت سے اترنے پربرہم ہیں۔ تب نہ اُن کو ملک و قوم کا خیال تھا اور نہ اب آپ کو ملک کا خیال ہے ۔پاکستان معیشت کی بدحالی اور پٹرولیم کی قیمت پر کیے گئے غلط فیصلوں سے دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔آپ کا چورن بک رہا ہے چنانچہ موجیں کریں۔ کیونکہ حکمرانوں کے نزدیک عوام کا کام نعرے لگانا اور پھر پانچ سال پستے جانا مقدر ٹھہرا ۔اپنی تازہ تقریرمیں عمران خان نے الزام لگایا کہ نیوٹرل کو بتایا تھا کہ ملک کے خلاف سازش ہو رہی ہے مگر وہ نہ صرف خاموش رہے بلکہ اس سازش کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کیا۔وہ کہتے ہیں کہ نیوٹرل،نیوٹرل کیوں ہے؟۔جب آپ کے دھرنے سے چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہوا تھا تو کیا اُس وقت آپ ملک کے خلاف سازش کر رہے تھے ؟ْ۔جب ماضی میں پی ٹی آئی کے دھرنے کو فوج سپورٹ کر رہی تھی تو کیا وہ عمل احسن تھا؟۔آج جب فوج اپنے آئینی کردار کو ادا کر رہی ہے اور سیاسی میدان سے باہر کھڑی ہے تو آپ کو بری لگ رہی ہے اور آپ اپنے مفاد کی خاطر اس کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں۔خدا کے لیے باقی سیاست دانوں کی طرح آپ اقتدار کے لیے ملک و قوم کی تقدیر سے نہ کھیلیں اور وقت کا انتظار کریں اور اس حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں تاکہ ملک سری لنکا کی تصویر نہ بنے۔یاد رکھیں !جب مفاد پرست سیاست دانوں نے شام،عراق ،لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک کی افواج کے خلاف عوام کو سڑکوں پر نکالا تو وہ ملک تباہ ہوگئے کیونکہ اُن ممالک کی عوام کو دشمن سے بچانے والا کوئی فوجی نہ بچا تھا۔آ ج کے سیاسی حالات میں عوام کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سازشی کون ہے؟ معیشت کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ محب وطن کون ہے؟نیوٹرل کون ہے اور کیوں ہے؟ ۔آخر میں پاکستانی سیاست دانوں کو کہنا چاہوں گا کہ فطرت کی دنیا میں پھول کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں۔چنانچہ انسان کو کامیاب ہونے کے لیے دونوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا ہنر آنا چاہیے۔