بابری مسجد کے بعد اب شاہی عید گاہ  بھی بھارتی جنونیت کا شکار 

بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کو مندر قرار دے دیا اور اترپردیش کے شہر متھرا کی عدالت میں شاہی عید گاہ مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔ہندو انتہاپسند وکیلوں کے گروپ کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ متھرا عیدگاہ مسجد اصل میں مندر اور ہندوؤں کے دیوتا کرشن کی جائے پیدائش ہے۔ مسجد میں نماز کی ادائیگی پر فوری اور مستقل پابندی لگائی جائے۔ ریاست مدھیہ پردیش میں انتہا پسند ہندوئوں کے مزار کے باہر بت نصب کرنے کی کوشش پر حالات کشیدہ ہو گئے۔ بھارت کا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ چہرہ تو روزاول سے ہی عیاں ہے جس کا ہر دور حکومت میں کھل کر مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور حکومت میں نریندر مودی اور ان کی پروردہ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے مسلمانوں سمیت بھارت میں موجود تمام اقلیتوں کے خلاف جو جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے اس سے پوری دنیا میں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں، اب ان کی عبادت گاہیں اوران کی تاریخی عمارتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایودھیا میں وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے 1992ء میں بابری مسجد کو رام کی جائے پیدائش کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے شہید کرکے وہاں رام مندر تعمیر کیا گیا، مسلمانوں نے جب اس تعمیر کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو بھارتی عدالت نے ہندوئوں کے حق میں ہی فیصلہ صادر کیا۔ اوراب شاہی عیدگاہ مسجد کو بھی مندر قرار دے دیا گیا اور وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں سمیت کسی بھی مقدس مقام یا تاریخی عمارت کے محفوظ ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ بیشتر عبادت گاہوں کے بارے میں شدت پسند ہندوئوں نے دعویٰ کرناشروع کر دیا ہے کہ یہاں پہلے مندر آباد تھے جنہیں مسمار کرکے مسلمانوں نے اپنی عبادت گاہیں تعمیر کی ہیں۔ محبت کی علامت کے طور پر جانے جانے والے تاج محل کی تاریخ اور اس کی اہمیت سے پوری دنیا واقف ہے، لیکن اب متعصب ہندوئوں کی جانب سے اسے بھی متنازع بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس میں کوئی دو رئے نہیں کہ بھارت اب اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے غیرمحفوظ ہو چکا ہے جہاں ان کے ساتھ سب سے زیادہ متعصبانہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ان کی عبادت میں بے جا رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، مساجد اور دوسرے مقدس مقامات کو شہید کرکے وہاں مندر تعمیر کیے جارہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بھارتی فورسز کی چیرہ دستیوں کا سلسلہ جاری ہے جن کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں مگر افسوس عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری پر کہ نہ تو بھارت کے ان متعصبانہ رویوں کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور نہ ہی کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اس کے جنونی ہاتھوں کو روکا جا رہا ہے۔ بھارت کا سیکولر چہرہ اب پوری دنیا میں بے نقاب ہو چکا ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم امہ کو اپنے نمائندہ فورم اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پر ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی و علاقائی فورموں پر بھی بھارت کی ان ریشہ دوانیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ بھارت میں بسنے والی بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے انسانی اور مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے کیونکہ ہندو جنونی جس طرح بھارت کو ہندو ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اقلیتوں پر مظالم بڑھتے جائیں گے اور ان پر لگنے والی پابندیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ صورتحال پوری بین الاقوامی برادری کے لیے شدید تشویش کا باعث ہونی چاہیے کیونکہ یہ معاملہ کروڑوں انسانوں کے حقوق اور جانی و مالی تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔

ای پیپر دی نیشن