شائد ہمارا کلچر ہی ایسا بن گیا ہے کہ ہم نے چین سے نہیں بیٹھنا، بس اتھل پتھل کئے رکھنا ہے۔ کوئی حکومت کسی اپوزیشن کو سوٹ نہیں کرتی اور کوئی اپوزیشن کسی حکومت کی جانب سے قبولیت کا درجہ نہیں پاتی، اسی طرح ایک وقت میں عدلیہ اور اس کی عملداری دل کو بھاتی ہے اور اگلے ہی وقت زہر لگنے لگتی ہے۔ ہمارا کچھ ایسا ہی معاملہ دوسرے ریاستی اداروں کے بارے میں بھی ہے۔ الیکشن کمشن نے آپ کی توقعات اور دل میں دبی خواہشات کے عین مطابق کوئی فیصلہ صادر کر دیا تو اس کی آزاد اور خودمختار حیثیت پر داد و تحسین کے ڈونگرے اور اسی الیکشن کمشن کی جانب سے آپ کی سوچ کے مطابق آپ کے ارمانوں کا خون کرنے والا کوئی اقدام اٹھا لیا گیا تو اس کی جانبداری اور مخالفین کے حق میں پارٹی بننے کے الزامات اس کی گردن تک آ جائیں گے اور ادارے کے ساتھ ایک صفحے والی یکجہتی کا معاملہ تو کبھی قبولیتِ عام والی سند حاصل نہیں کر پایا۔ اس کے ساتھ ماضی قریب تک تو مخاصمت والے جذبات کا ہی اظہار ہوتا رہا ہے۔ صرف پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ایک صفحے کی یکجہتی والا ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر جب ادارے کا ہاتھ پی ٹی آئی حکومت کے سر سے اٹھتا اور اس کا اصل غیر جانبدارانہ کردار ابھرتا ہوا محسوس ہوا تو ایک صفحے والی یکجہتی کے الٹنے میں ذرہ بھر دیر نہ لگی۔
شائد یہ بے قراری ہی ہماری گُھٹی میں ڈالی گئی ہے اس لئے سکون عنقا اور اضطرار و اضطراب چوکڑیاں بھرتا نظر آتا ہے۔ آخر ہمارا اجتماعی موڈ ا یسا کیوں بن گیا ہے کہ بس اپنے فائدے والا معاملہ ہی ہم نے قبول کرنا ہے اور ہلکی سی اختلافی بات چاہے کسی ’’ریشہ خطمی‘‘ کی جانب سے ہی کیوں نہ کر دی جائے۔ اسے قعرِ مذلت کی جانب دھکیلنا ہماری ازخود ذمہ داری بن جاتا ہے۔ بھئی اس کلچر کے اسیر ہو کر ہم کس کی خدمت کر رہے ہیں، کس کو مضبوط بنا رہے ہیں اور کس کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بلغمی مزاج کو بس ٹھنڈک ہی راس آتی ہے، ورنہ مارا ماری، اوازاری ، خجل خواری۔ کیا ایسے قومیں بنتی ہیں؟ اور من حیث القوم ہم اعتماد و اتفاق کو پرے دھکیلتے رہیں گے تو ملک کے استحکام و خوشحالی کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر کر پائیں گے۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
توقع تو یہی تھی کہ شورا شوری کے دور پُرآشوب دور سے نکل کر ہم کسی آسودگی و راحت کے منظر سے ہمکنار ہو جائیں گے مگر؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
حکومت بدل گئی مگر ہم کم نصیبوں کے حالات نہیں بدلے۔ ملک اور معاشرے کا ماحول نہیں بدلا۔ کھینچا تانی اور شورا شوری بدستور جاری ہے۔
دو مہینے ہونے کو آئے ۔ نہ وفاق میں قرار آیا نہ صوبوں کی بے چینی ختم ہوئی۔ سنورتے بگڑتے حالات گھمبیر سے گھمبیر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
دو ماہ قبل اتھل پتھل کے ارادے باندھے بیٹھی اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی جس پر کارروائی کے طریق کار کے بارے میں آئین و قانون میں کوئی ابہام و الجھائو نہیں تھا مگر اس وقت کے حکومتی اکابرین نے الجھائو کے جال بچھا دئیے۔ حکمران جماعت کے دو درجن کے قریب ارکان اپوزیشن کے ہاتھ لگ گئے۔ حکومتی اتحادی بھی بپھر اور بگڑ گئے۔ سو عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری نوشتۂ دیوار بن گئی مگر حکومتی بنچوں نے عدم اعتماد کی اس تحریک کو پٹخنے کے لئے جگاڑ لگانے اور جائز ناجائز سارے راستے اختیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اور تو اور۔ کسی پارٹی کے منحرف ارکان کو پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی انہیں نااہل کرانے کی بھی ٹھان لی گئی۔ صدارتی ریفرنس تیار ہوا جو سپریم کورٹ میں دائر کر کے آئین کی دفعہ .63 اے پر اس سے رائے طلب کر لی گئی کہ آیا یہ آرٹیکل کسی پارٹی کے منحرف ارکان کو اپنی پارٹی کے فیصلہ کے خلاف ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لئے بھی کارآمد ہو سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں ایک دو پیشیوں کے بعد معاملہ زیر التواء رہا۔ اسی دوران ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے جگاڑ لگا کر وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک مسترد کر دی جس کی آئین کی دفعہ 95 اور اس کی ذیلی دفعات میں کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی تھی۔ اپوزیشن اس جگاڑ پر ششدر ہو گئی تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کی اس جگاڑ کے خلاف ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لے لیا گیا چنانچہ ہکا بکا بیٹھی اپوزیشن کے سانس بحال ہوئے اور پھر آئین کی عملداری ثابت کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم کی گئی جس کے نتیجہ میں حکومت کی جانب سے اگالدان میں پھینکی گئی اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک پھر زندہ ہو گئی اور حکومت کے گلے پڑ گئی اور اس کا بالآخر اسی تحریک کے ذریعے خاتمہ بالاہتمام ہوا تو آئین و قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ انصاف کی عملداری کے بھی ڈنکے بجنے لگے۔
قوم کے بے تاب طبقات کو یک گو نہ اطمینان ہوا کہ اب سکھ کے سانس میسر ہونے کے مواقع نکل آئے ہیں مگر یہ مواقع ڈھونڈتے ڈھونڈے دو ماہ گزر چکے۔ جن اقتصادی اور مالی حالات نے عوام کے غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری کے مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر بنائے وہ پی ٹی آئی کی مخالف مخلوط قومی حکومت سے بھی اب تک نہیں سنبھل پائے اور حکومتی اتحادی شش و پنج میں پڑے ہیں کہ ’’کوئلے‘‘ کی دلالی میں ہاتھ منہ کالا کر کے ’’عزتِ سادات‘‘ سے بھی جائیں یا شرافت کے ساتھ اس دلالی سے خلاصی پا لیں۔ تادمِ تحریر حکومتی اتحادی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے جتن کر رہے تھے مگر اسی دوران دفعہ .63 اے کی وضاحت کے معاملہ میں صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کی رائے سے بھونچال آ گیا۔ کچھ اصحاب الرائے دانشوروں نے سوال اچھالا کہ دفعہ .63 اے کی تشریح یا وضاحت تو مجاز اتھارٹی کی حیثیت سے سپریم کورٹ نے ہی کرنی تھی مگر اب سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والی تشریح کی تشریح کون کرے۔ سو محض چند ہفتے قبل جس آئینی ریاستی ادارے کی آئین کی شارح کی حیثیت سے جے جے کار ہو رہی تھی، اس کی جانب انگلیاں اٹھتی دکھائی دینے لگیں۔ پھر اگلے ہی روز ’’موسم‘‘ مزید ناہموار ہو گیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے بعض ہائی پروفائل کیسز میں مداخلت اور پراسیکیوشن ٹیم کی تبدیلی کا عندیہ ملنے پر ازخود نوٹس لیا اور حکومت کو ایسی مداخلت سے روک دیا تو انصاف کی عملداری کے لئے ابھی ابھی کی رطب اللسان زبانیں شعلے اگلتی نظر آنے لگیں۔ اس کے برعکس انصاف کی عملداری کے ساتھ گزری کل تک جو چہرے سیخ پا اور تنے ہوئے نظر آتے تھے وہ یکدم پلٹا کھا کر اس معزز آئینی ریاستی ادارے کے لئے ریشہ خطمی ماحول اور منظر بناتے نظر آ رہے ہیں تو حضور! اضطرار و بے قراری کا ماحول اور بھلا کیا ہوتا ہے۔ ہمارے مزاج میں یا نصیب میں قرار کہیں لکھا ہی نہیں۔ جو چیز یا معاملہ طبع نازک پر ذرا سا بھی گراں گزرتا ہے اس پر صاد کرنا ہماری زود رنج طبیعت کو گوارا ہی نہیں۔ بس ہم نے کھڑاک کئے رکھنا ہے اور ایسا ماحول بنائے رکھنا ہے کہ ؎
تکمیل ضروری ہے، اِدھر ہو کہ اُدھر ہو
ناکردہ گناہی بھی گناہوں میں چلی آئے
اسی دھما چوکڑی میں آئین کی دفعہ .63 اے والی سپریم کورٹ کی تشریح نے پنجاب کا پہلے سے ناآسودہ ماحول مزید گرما دیا ہے۔ نمبر گیم چل رہی ہے، پوائنٹ سکورنگ ہو رہی ہے اور ایک دوسرے کو چاروں شانے چت کرنے کے دائو پیچ لگائے جا رہے ہیں۔ سو کیفیت ’’تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں‘‘ والی بن گئی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں سنسار بٹ رہا ہے۔ خدا خیر کرے۔ ہم میں کیف و قرار کی کوئی رمق ہی نہیں تو ہمارے ہاتھوں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے بخیئے ہی ادھڑتے رہیں گے۔ اس بے قرار معاشرے میں کس کو دوش دیں، کس کو روگی ٹھہرائیں، کس کو سراہیں کیونکہ ہمارا تو یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ؎
عجز و نیاز ہے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو آج ان کے حریصانہ کھینچئے
’’دامن کو آج ان کے حریصانہ کھینچئے‘‘
May 20, 2022