اسلام آباد لاہور (خصوصی رپورٹر+ خبرنگار) وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سرا ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ءکیخلاف درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے سیکشن 2 اور 3 اسلامی تعلیمات کیخلاف ہیں، جسمانی خدوخال کے مطابق کسی کو مرد نہیں کہا جاسکتا، ایکٹ کے سیکشن 7 کو بھی غیر اسلامی قرار دے دیا گیا کیونکہ سیکشن 7 کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کرکے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا جبکہ وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شریعت کسی کو جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی۔ کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا۔ جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔ خواجہ سرا خود کو مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے۔ خواجہ سرا ان تمام بنیادی حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں، خواجہ سرا¶ں کی جنس کا تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا۔ جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جنس کا تعلق انسان کی بائیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے۔ نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے۔ جنس کا تعین انسان کی احساسات کی وجہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام سمیت مختلف تنظیموں کی جانب سے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے اس ایکٹ کے خلاف جماعت اسلامی اور حکمران اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے علاوہ ایک درجن سے زائد درخواست گزاروں نے وفاقی شرعی عدالت میں درخواستں دائر کی تھیں۔ عدالت نے اس ایکٹ کی روشنی میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے بنائے گئے رولز کو بھی معطل کر دیا ہے۔
شرعی عدالت