واشنگٹن (این این آئی) سابق امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام پورے خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے اور جنگ کا باعث بن سکتا ہے، ساتھ ہی بتایا ہے کہ وہ ملک میں ہونے والی حالیہ پیش رفت میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے کے حوالے سے بات چیت اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا میں اہم کردار ادا کرنے والے زلمے خلیل زاد نے حال ہی میں پاکستان کی صورتحال پر کئی ٹوئٹس پوسٹ کی ہیں، ان ٹوئٹس میں انہوں نے پاکستانی سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر زور دیا کہ وہ حالات کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں اور اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔انہوں نے بتایا کہ کس طرح پاکستان کے مقامی تنازعات نے انہیں خیالات کے اظہار پر مجبور کر دیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں پاکستان میں تیزی سے خراب تر ہوتے اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے بحران کے بارے میں فکر مند ہوں، پاکستان غیر مستحکم، غریب اور کم محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ عدلیہ اور فوج سمیت ریاستی ادارے اندرونی طور پر سیاست کا شکار ہو رہے ہیں اور اگر ملک اسی طرح چلتا رہا تو یہ پاکستان اور اس کے عوام کے لیے ایک المیہ ہوگا، معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہو جائیں گی، غربت بڑھے گی، شہری بدامنی روزمرہ کی زندگی کو درہم برہم کر دے گی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس لیے بھی پریشان ہیں کہ پاکستان کے حجم اور اہمیت کے پیش نظر اس کے مسائل خطے میں طاقت کے توازن کو بھی خراب اور جنگ کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر دشمنوں کو پاکستان کے اس انتشار سے موقع مل سکتا ہے یا اس کی اپنی فوج تنازع کو بیرونی شکل دینے کا حربہ استعمال کر سکتی ہے۔زلمے خلیل زاد نے کہا کہ اس بحران کی فوری وجہ پاکستان کی اہم سیاسی اور فوجی طاقتوں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے جس نے اقتدار کے لیے ایک کے فائدے اور دوسرے کے نقصان کی سوچ کو جنم دیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان بغیر کسی نقصان کے اس بحران سے نکل سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ ممکن ہے، لیکن صرف اس صورت میں ممکن ہے اگر اہم افراد اور ادارے قومی مفاد کو اپنے ذاتی عزائم، رنجشوں اور چال بازیوں سے بالاتر ہو کر کام کرنا شروع کردیں۔سابق اعلی امریکی عہدیدار نے خبردار کیا کہ اس بحران کے خطے پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، انتہائی حد تک یہ علاقائی توازن کو خراب کر سکتا ہے جس سے پاکستان کا نقصان ہو سکتا ہے اور یہاں تک کہ دہشت گردی، بڑی تعداد میں پناہ گزینوں وغیرہ کے مسائل میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ جوہری اثاثوں کے تحفظ کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں کیونکہ اس معاملے پر پاکستان کا ریکارڈ اچھا رہا ہے لیکن، یقینا پاکستان میں خدانخواستہ سیاسی تباہی اس مسئلے پر دنیا بھر میں تشویش پیدا کرے گی۔