خواب صرف جہانگیر ترین کے نہیں بکھرے ان جیسے ہزاروں لوگوں کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں جو نیا پاکستان بنانے کا عزم لے کر گھر سے نکلے تھے اور آج جلتا ہوا پاکستان دیکھ رہے ہیں۔ وہ جو نیا پاکستان بنانا چاہتے تھے وہ اپنے پاکستان کی بنیادوں کو ہلانے لگے ہیں۔ وہ جو پاکستان کے پاسپورٹ کی عزت کروانا چاہتے وہی اس سبز پاسپورٹ کے بڑے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ اس نئے پاکستان کا خواب تو نہیں دکھایا گیا تھا، ایسا نیا پاکستان بنانے کے لیے تو لوگ دھرنے نہیں دیتے تھے، لوگ تو پرامن اور ترقی کرتا ہوا پاکستان دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ یہاں روڈ بلاک ہیں، تاریخی عمارتوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ معیشت کو تباہ کر دیا گیا ہے، معاشرے میں تحمل اور سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور حالیہ واقعات نے تو سنجیدہ لوگوں کے دل و دماغ پر بہت شدید اثرات چھوڑے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہانگیر خان ترین بھی بولے ہیں۔
جہانگیر ترین نے کہتے ہیں کہ "ہم پی ٹی آئی کے ساتھ اس لیے تھے کہ نیا پاکستان بنائیں گے۔ تحریک انصاف کو اپنی زندگی کے دس سال دئیے لیکن اب عمران خان کے ساتھ میرا کنکشن ٹوٹ چکا ہے۔ عمران خان سے دوستی دو سال پہلے ختم ہو چکی۔ جناح ہاو¿س پر حملے کا بہت افسوس اور دکھ ہوا اس طرح کی حرکتوں پر پابندی ہونی چاہیے۔ ملک میں ہونے والے جلاو¿ گھیراو¿ پر افسوس ہے، جناح ہاو¿س کے ساتھ یہ کیا گیا، یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ جناح ہاو¿س پر حملہ کرے"۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ جہانگیر ترین نے عمران خان کو ایوان وزیراعظم پہنچانے کے لیے بہت محنت کی اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دس سال ضائع ہو گئے ویسے اس معاملے میں پی ٹی آئی بدقسمت ہے کیونکہ جہانگیر ترین سے بالخصوص زراعت کے شعبے میں کام لیا جاتا تو ملک و قوم کا بہت فائدہ ہوتا۔ وہ زرعی حوالے سے ایک کامیاب شخصیت ہیں اور تعمیری صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ایسے افراد کو ہر وقت ایک مشاورتی کمیٹی میں ہونا چاہیے جو خالصتا ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کرتے رہیں۔ جناح ہاﺅس اور ملک میں ہونے والی توڑ پھوڑ پر وہ بھی دکھی ہیں۔ انہوں نے پابندی کا مطالبہ بھی اسی لیے کیا ہے کیونکہ کوئی بھی ملک میں آگ اور خون کا کھیل نہیں کھیلنا چاہتا۔ سیاسی لوگ سیاسی میدان میں عدم تشدد کے فلسفے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ملک پر اس وقت حکومت کرنے والے بھی پاکستانی ہیں انکی حب الوطنی پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ آپ سیاسی عمل سے انہیں حکومت سے باہر کریں یہ کوئی طریقہ نہیں کہ حکومت ختم ہونے کے بعد پاگلوں کی طرح سڑکوں پر پھریں اور اپنے ملک کو آگ لگاتے رہیں۔ جہانگیر ترین اس ملک کے کامیاب سیاست دان اور کاروباری شخصیت ہیں پی ٹی آئی بدقسمت ہے کہ اس نے ہر مخلص، تعمیری سوچ کے حامل اور مثبت بات چیت کرنے والوں کو دیوار سے لگایا ہے۔ عمران خان اگر جہانگیر ترین جیسے مخلص اور بے لوث لوگوں کو بھول سکتے ہیں تو وہ اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جہانگیر ترین کو نئے پاکستان کا خواب ٹوٹنے کا دکھ ضرور ہے لیکن وہ تعمیر پاکستان میں آج بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں گھر بیٹھنے کے بجائے میدان عمل میں رہنا چاہیے ملکی سیاست کو جہانگیر ترین کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے شدت پسندوں نے ریاستی اداروں کو نشانہ بناتے بناتے جناح ہاﺅس کو نذر آتش کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ جناح ہاﺅس لاہور میں جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا کیا کوئی باشعور، محب وطن اور ملک و قوم کا درد رکھنے والا سیاسی رہنما یا اس کے کارکنان ایسا کر سکتے ہیں۔ یقینا نہیں کوئی ایسا نہیں کر سکتا بالخصوص جو کچھ ان ظالموں نے جناح ہاﺅس میں کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے دل پر کیا گذرے گی۔ میں روزانہ ایک سے زیادہ مرتبہ جناح ہاﺅس کے قریب سے گذرتا ہوں نجانے اس ٹوٹے پھوٹے نذر آتش جناح ہاﺅس کو دیکھ کر کیسے خود پر قابو رکھتا ہوں۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ کو جلا دیا گیا۔ جس بے دردی سے جناح ہاﺅس میں آگ لگائی گئی ہے وہ مناظر ہی دل کو چیر دینے والے ہیں۔ جسے کور کمانڈر ہاﺅس کہا جاتا ہے وہ جناح ہاﺅس ہے۔ جناح ہاﺅس یعنی بابائے قوم قائداعظم کا گھر ہے۔ بانی پاکستان جنہوں نے اس ملک کو بنایا جنہوں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر دی مظاہرین نے اس جناح ہاﺅس کو آگ لگائی ہے۔ جناح ہاﺅس پر دھاوا بولنے والے ان کی قیادت کرنے والے اور انہیں اس مجرمانہ فعل پر ابھارنے والوں میں سے کوئی بھی رعایت کا مستحق نہیں۔ جناح ہاﺅس میں توڑ پھوڑ کرنے والوں، بانی پاکستان کے گھر کی بے حرمتی کرنے والوں کو ناصرف قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے بلکہ انہیں نشان عبرت بھی بنایا جانا چاہیے۔ بانی پاکستان کا نام جڑے ہونے کی وجہ سے جناح ہاﺅس کی حیثیت قومی ورثے کی ہے۔ قومی ورثے کو نقصان پہنچایا گیا یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ان بے شرموں کو جو ڈنڈے لے کر وہاں گھسے اور توڑ پھوڑ کرتے رہے انہیں نہ اس گھر کی تاریخی اہمیت کا احساس تھا نہ جو بدتمیزی وہ کر رہے تھے اس کا اندازہ تھا اور نہ انہیں اس گھر کی طرف دھکیلنے والوں کو کوئی شرم آئی کہ سیاسی نفرت میں وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف سینیٹر ولید اقبال نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں "جناح ہاو¿س میں پی ٹی آئی ورکرز نظر آئے تاہم یہ ورکرز کا انفرادی فعل تھا۔اس حوالے سے نہ پارٹی نے ایسا کوئی اعلان کیا تھا اور نہ ایسی کوئی پالیسی تھی۔ جناح ہاو¿س پر حملے کو شرمناک اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ یا جو بھی قانون لگتا ہے اس کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔"
سینیٹر صاحب پارٹی کارکنان کو اس ذاتی فعل کے لیے تیار کس نے کیا ہے۔ تبلیغی جماعت والے گھر گھر جا کر لوگوں کو مسجد آنے کی دعوت دیتے ہیں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی یاددہانی کرواتے ہیں بہت سے لوگ مسجد بھی جاتے ہیں اور یقینا تاجدار انبیاءخاتم النبین کی سنتوں پر بھی عمل کرتے ہیں تو یہ نماز کی ادائیگی اور سنتوں پر عمل یقینا ان کا ذاتی فعل ہے لیکن انہیں یاددہانی کروانے والوں کو بھی ان اعمال کا ثواب ملتا ہے۔ اس لیے سینیٹر صاحب ہمت کریں لوگوں کو پورا سچ ضرور بتائیں کہ آخر پارٹی کارکنان کو اس نہج پر کون لایا، کون انہیں مہینوں سے ابھار رہا تھا، کون انہیں یاد کروا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کے سارے سیاست دان ملک دشمن ہیں اور دفاعی ادارے بھی ملک دشمن ہیں۔ پی ٹی آئی نہیں صرف عمران خان نے گذشتہ چند ماہ میں لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھرا ہے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت آج بھی عمران خان ہے نفرت انگیز نفرت آمیز بیانیے کا دفاع کر رہی ہے اور اگر ولید اقبال بھی ایسا کرتے ہیں تو یہ تکلیف ناقابل برداشت ہے۔
آخر میں سلیم کوثر کا کلام
تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے
ہم چاند اٹھائے ہوئے پانی سے نکلتے
خاموش سہی، مرکزی کردار تو ہم تھے
پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے
مہلت ہی نہ دی گردشِ افلاک نے ہم کو
کیا سلسلہ نقل مکانی سے نکلتے
اک عمر لگی تیری کشادہ نظری میں
اس تنگءداماں کو گِرانی سے نکلتے
بس ایک ہی موسم کا تسلسل ہے یہ دنیا
کیا ہجر زدہ خواب جوانی سے نکلتے
وہ وقت بھی گزرا ہے کہ دیکھا نہیں تم نے
صحراو¿ں کو دریا کی روانی سے نکلتے
شاید کہ سلیم امن کی صورت نظر آتی
ہم لوگ اگر شعلہ بیانی سے نکلتے