اڑتالیس گھنٹے اورخوف کا بت

کہا تھا نا یہ سسپنس تھرلر ہے، سنسنی سے بھرپور، آگے کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا سکرپٹ رائٹر بھی نہیں۔ جہاں سب سمجھتے ہیں کہ کہانی ختم کہانی دراصل وہیں شے شروع ہوتی ہے۔ اڑتالیس گھنٹوں نے سب بدل دیا، جی ہاں سب کچھ۔ یہ شروع ہوا 9 مئی کی دوپہر سے جب اچانک ٹی وی چینلز کی اکثر سرخ رہنے والی سکرینیں یکدم اتنی سرخ ہوگئیں کہ یہ سرخی چنگھاڑ چنگھاڑ کر سب کو متوجہ کرنے لگی آخر وہ خبر آگئی اور وہ خدشہ درست ہو ہی گیا۔ ایک بڑی گرفتاری۔ گرفتاریاں تو پاکستان میں گزشتہ چار سال میں اتنی ہوئیں کہ اب تو ٹی وی سکرین پر جہاں کچھ پولیس والے اکٹھے دکھائی دیتے ہیں لگتا ہے کسی اور گرفتاری کی بریکنگ نیوز آرہی ہے،کوئی بچا ہی نہ تھا چن چن کر سب کو جیل بھیجا گیا اور پھر کسی کی قسمت اچھی نکلی تو وہ چند ہفتوں میں باہر آگیا ورنہ مہینے اور سال لگ گئے اندر جانے والوں کو باہر آتے آتے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ سانحات سے بھری پڑی ہے۔ یہاں ملک کے پہلے وزیر اعظم کو ہزاروں لوگوں کے درمیان گولی مار دی گئی۔ ایک مقبول ترین وزیراعظم کو جس نے ملک میں سیاست کو نئی جہت دی، ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، شناختی کارڈز کا اجرا کرکے ہر شہری کو پہچان دی، دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کو اس سرزمین پاک پر اکٹھا کر کے دنیا کو امت مسلمہ کی طاقت سے روشناس کرایا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، اسے ایک ایسے قتل کے فیصلے میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا جو آج بھی عدالتی تاریخ میں ایک بدترین مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی وزیر اعظم کی جانشین جس نے اپنے والد کی سیاسی اور عدالتی شہادت کا انتقام سیاست اور جمہوریت کے ذریعے لیا پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی۔ اسے اس کے ہزاروں چاہنے والوں کی موجودگی میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ کی پہلی دو تہائی اکثریت کی اسمبلی کو روندتے ہوئے ایک فوجی آمر نے منتخب وزیر اعظم کو اقتدار سے نکال باہر کیا اور جلاوطن کر ڈالا اور پھر ملکی تاریخ میں پہلی بار اسے تیسری بار وزرات عظمیٰ حاصل کرنے کے بعد بھی عدالت نے ایک ایسے جواز پر نہ صرف حکومت بلکہ سیاست سے عمر بھر کے لیے نکال باہر کیا جسے کوئی دانست ماننے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں چار سال کے دوران سیاسی گرفتاریوں کی اوسط شرح نکالی جائے تو شاید باقی ادوار سے کہیں زیادہ نکلے گی اور یہ دور تھا صاف اور شفاف چلنے والی تحریک انصاف کا۔ اس دور میں تمام سیاسی مخالفین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔ ایسے ایسے کیس بنے کہ مخالفین کیا حکومت کے حامی بھی حیران دکھائی دیے۔ لیکن وقت تو بدلتا ہے اور وقت بدلا اس وقت شاید مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ ان پر بھی ایسا وقت آسکتا ہے لیکن جیسے ہی ان کا وقت گیا احساس ہونے لگا کہ ان پر بھی ویسا وقت آسکتا ہے۔اور پھر یقین ہوتا چلا گیا کہ ویسا وقت ضرور آئے گا اور شاید جلد آئے گا۔
انھوں نے ہر بار کی طرح یہاں بھی پیشگی اقدامات کا ماحول بناتے ہوئے حامیوں کی ذہن سازی شروع کردی، ان کو بتانا شروع کردیا کہ کون ان کو گرفتار کرنا چاہتا ہے۔ کوئی ثبوت تو تھا نہیں لیکن ان کے حامیوں کے لیے تو ان کا کہا ہی سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔وہ تیار تھے جیسے ہی گرفتاری کی بریکنگ نیوز آئی وہ سب شروع ہوگیا جس کی ذہن سازی کی گئی تھی اور ملک کی تاریخ میں وہ سب ہوگیا جس کا کسی کو اندازہ ہی نہ تھا۔ یہ گرفتاری صرف اڑتالیس گھنٹے ہی رہ سکی لیکن ان اڑتالیس گھنٹوں نے کس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے، کون کہاں کھڑا ہے، سب کچھ سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ ملک کی اہم اور حساس ترین عمارتوں پر حملے کوئی ردعمل نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی دکھائی دے رہی تھی جس کو نظر انداز کرنا ریاست کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ ہمیشہ بڑے مسائل اور مشکلات کی وجہ عمل سے زیادہ ردعمل بنتا ہے اور یہاں بھی اس سیاسی جماعت کا جو ردعمل آیا اس نے وہ کردیا جو اس جماعت کے ساتھ شاید نہیں بلکہ یقینا مخالفین کبھی نہ کرپاتے۔ مقبولیت بہت پیچھے رہ گئی اب تو بات قبولیت پر آگئی ہے۔ سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں بلکہ یوں کہیں جانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان جیلوں اور سزاوں کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کا انھیں سیاسی فائدہ ہوتا بھی ہے لیکن یہاں جیل جانے کے خوف نے ایک بڑی سیاسی جماعت کا مستقبل ہی خطرے میں ڈال دیا۔ کاش دوسروں کو خوف کے بت توڑنے کا درس دینے والے اگر خود بھی یہی خوف کا بت توڑ ڈالتے تو ملک کا اتنا نقصان ہوتا نہ اس کی اپنی سیاست کا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن