سینئر قانون دان بابر اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے اوپر بنائے گئے کیسز اتنے ہی سچے ہیں‘ جتنی نوازشریف کی بیماریاں۔
ہماری سیاست کا المیہ ہی یہ ہے کہ اہل اقتدار اپوزیشن کا جینا دوبھر کئے رکھتے ہیں اور اب اپوزیشن والے برسراقتدار آتے ہیں تو وہ اپنی اپوزیشن کو نکیل ڈالے رکھتے ہیں۔ انکی اس کشمکش میں بے چارے عوام راندۂ درگاہ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ملک میں بدترین سیاسی انتشار ہے‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو رگڑا لگانے کی کوششوں میں ہیں‘ بلیم گیم عروج پر ہے‘ بے چارے عوام سمجھ نہیں پا رہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔ کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ ہم انتقامی کاررائیوں پر یقین نہیں رکھتے‘ جبکہ جو کچھ ایک دوسرے کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ اس سے انتقامی کارروائیوں کا ہی شائبہ ہوتا ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو اسے کئی بیماریوں نے گھیرا ہوا تھا‘ کوئی وہیل چیئر پر بیٹھا نظر آرہا تھا تو کوئی وینٹی لیٹر پر تھا۔ کئی کئی مہینے بیڈ سے اٹھ نہیں پا رہے تھے جبکہ برسراقتدار پی ٹی آئی نے بھی ان پر کیسز بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اب جب سے اپوزیشن اقتدار میں آئی ہے‘ ساری بیماریاں اڑن چھو ہو گئیں۔ کسی کو نزلہ ہے نہ زکام۔ ہشاش بشاش ہو کر حکومتی امور چلا رہے ہیں اور اپوزیشن پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔ بہرحال ہمارے سیاست دانوں کی بیماریاں اور مقدمے کہاں تک درست ہوتے ہیں‘ یہ تو بابر اعوان صاحب نے بتا دیا ہے۔ اور اب تو قوم بھی باشعور ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکمران عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کرتے ہیں تو یقین کرنے کے بجائے عوام کا ہاسا نکل جاتا ہے۔ قوم کو اتنے لالی پاپ دیئے جا چکے ہیں کہ وہ کھا کھا کر تھک چکی ہے۔ حکومتی لالی پاپ میٹھے تو نہیں ہوتے البتہ ٹینشن سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹینشن بھرے لالی پاپ کھا کرقوم میں شوگر اور دل کے امراض کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
٭…٭…٭
یاسمین ڈار پہلی پاکستانی مسلم خاتون لارڈ میئر مانچسٹر منتخب ہو گئیں۔
یاسمین ڈار کے خلاف کسی نے ووٹ نہیں ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مانچسٹر میں دوسروں کو بااختیار بنائیں گی۔ پاکستان نژاد کونسلر یاسمین ڈار ڈونکاسٹر میں پیدا ہوئیں لیکن انکی پرورش مانچسٹر میں ہوئی ہے۔پاکستانی خواتین ہر میدان میں کارنامے سرانجام دے رہی ہیں۔ سیاست ہو یامعاشرے کی اصلاح‘ فلاحی تنظیمیں ہوں یا حکومتی امور‘ جنگ ہو یا ہوا بازی‘ حتیٰ کہ کوہ پیمائی میں بھی اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کی قیادت اس وقت خواتین کے ہاتھ میں ہے، امریکہ میں کملا ہیرس نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں، بنگلہ دیش میں حسینہ واجد وزیراعظم کے فرائض انجام دے رہی ہیں جبکہ نیوزی لینڈ میں جیسنڈا آرڈن وزیراعظم کے عہدے سے حال ہی میں مستعفی ہوئی ہیں جبکہ جرمنی میں اینگلا مرکل چانسلر منتخب ہو چکی ہیں۔ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک، خواتین ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔پاکستان میں بھی خواتین سیاسی میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ نظر آرہی ہیں۔پاکستان میں یہ سلسلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شروع ہوا جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ ملک کی ترقی، خوشحالی اور خطے میں امن کیلئے ان کی شاندار کوششوں کا اعتراف نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ یاسمین ڈار کا لارڈ میئر مانچسٹر منتخب ہونا‘ پاکستان کیلئے باعث فخر ہے۔ پوری قوم انہیں مبارکباد پیش کرتی ہے۔
٭…٭…٭
بیٹا بھوک سے بھیک مانگنے پر مجبور‘ امریکہ میں والدین گرفتار۔
امریکی ریاست جارجیا میں ماں باپ کو اپنے 10 سالہ بیٹھے کے ساتھ بدسلوکی اور لاپروائی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ 10 سال بیٹا بھوک کی حالت میں گروسری کی دکان تلاش کررہا تھا تاکہ بھیک مانگ سکے۔ یہ سچ ہے کہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو برائی کی جڑ تک پہنچ کر اس کا خاتمہ کرتی ہیں۔ اگر اس لڑکے کو ہمارے معاشرے کی طرح نظرانداز کر دیا جاتا تو اسے بھی بھیک مانگنے کی لت پڑ جاتی۔ ایسا نہیں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھیک نہیں مانگی جاتی۔ بس وہاں پر مانگنے کا انداز مہذب ہوتاہے۔ سڑک کے کنارے‘ ساحل سمندر یا کسی مارکیٹ بازار میں کھڑے ہو کر ضرورت مند گٹار‘ یا کوئی بھی میوزیکل انسٹرومنٹ بجا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرتا ہے اور لوگ اسکی مدد کردیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں گلی محلوں‘ چوک چوراہوں پر جب تک بھکاری ’’بھتہ‘‘ وصول نہیں کر لیتے‘ لوگوں کی جان نہیں چھوڑتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ضرورت کے تحت نہیں‘ بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں جو ہم نے ان سے چھینا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے غریب والدین خود بچوں کو گداگری کی طرف مائل کرتے ہیں اور خود بھی مانگ تانگ کر گزارا کرتے ہیں۔ بظاہر یہ انتہائی غریب نظر آتے ہیں‘ مگر انکے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہوتا ہے۔ انکی حالت عام آدمی سے بہتر ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں گداگری کو معیوب سمجھا جاتا ہے‘ اسکے باوجود یہ پیشہ عروج پا رہا ہے۔ شاید اس بدترین مہنگائی نے بہت سوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ کئی بار حکومت گداگروں کیخلاف کریک ڈائون کرچکی ہے مگر وہ انہیں ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ امریکہ میں تو والدین کو گرفتار کرکے وہاں کی انتظامیہ نے اس لڑکے کو اس قبیح دھندے سے بچا لیا‘ یہاں اگر یہ حکمت عملی اپنائی گئی تو شاید جیلیں کم پڑ جائیں مگر بھکاری ختم نہیں ہونگے۔
٭…٭…٭
رواں سال بغیر ہیلمٹ 6 لاکھ موٹر سائیکل سواروں کیخلاف کارروائی کی گئی۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ انتظامیہ سختی سے ہیلمٹ کی پابندی کروا رہی ہے۔ موٹرسائیکل بے شک غریب آدمی کی سستی سواری ہے مگر کچھ منچلوں نے اسے شیطانی سواری بنا دیا ہے۔ نوجوان جس انداز میں موٹرسائیکل چلاتے ہیں اور جس طرح ون ویلنگ کرتے ہیں‘ وہ کسی طرح بھی خطرے سے خالی نہیں۔ موٹرسائیکل چلاتے وقت کسی قاعدے قانون کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ المیہ صرف موٹرسائیکل سواروں کا ہی نہیں‘ گاڑیوں‘ رکشوں اور چنگ چیوں کا بھی ہے۔ غلط سائیڈ اور انتہائی خطرناک انداز سے اوورٹیک کیا جاتا ہے جس سے یہ خود تو خطرہ مول لیتے ہی ہیں‘ دوسروں کو بھی لے ڈوبنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ رات کے وقت منچلے فلیش لائٹ کا استعمال کرتے ہیں جس سے سامنے سے آنیوالوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں جس سے حادثے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ ٹریفک انتظامیہ کو ایسی لائٹس استعمال کرنے والوں کیخلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لانی چاہیے اور فروخت کرنے والوں کو بھی پکڑنا چاہیے۔ ہیلمٹ کی پابندی اس لئے کروائی جاتی ہے کہ اگر خدانخواستہ حادثہ ہو تو سر چوٹ سے بچ جائے اور دماغ محفوظ رہے۔اس لحاظ سے ہیلمٹ کا استعمال قابل تحسین ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہیلمٹ پہنا کر عوام کو موت سے بچانے کیلئے تگ و دو کی جارہی ہے۔ مگر جو لوگ بھوک سے مر رہے ہیں‘ انکی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی آئے روز بھوک کے ہاتھوں کئی لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں‘ اپنے بچوں کو زہر دے رہے ہیں‘ اس مسئلہ پر کیوں توجہ نہیں دی جا رہی۔ اگر حکومت صرف آٹا ہی سستا کر دے تو غریب آدمی کم از کم روکھی سوکھی روٹی تو کھا سکتا ہے۔ مگر افسوس آٹے کے نرخ اس قدر بڑھا دیئے گئے ہیں کہ غریب آدمی تو کجا‘ سفید پوش طبقات کیلئے بھی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا گیا ہے۔ حکومت جس طرح ہیلمٹ پہنا کر عوام کی جان بچانے کیلئے کوشاں ہے‘ اسی طرح انہیں بھوک سے بچانے کی بھی کوئی تدبیر کرے۔