جی 20اجلاس: چین اور  ترکیہ کی عدم شرکت

جموں و کشمیر کا وہ حصہ جس پر بھارت نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اقوامِ متحدہ کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود بھار ت انتہائی ڈھٹائی سے اس علاقے میں ایسی کارروائیاں کررہا ہے جن کے ذریعے وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ وادی پر اس کا قبضہ جائز ہے۔ اسی سلسلے میں بھارت وہاں گروپ آف ٹونٹی یا جی 20 کا اجلاس منعقد کررہا ہے جس کے لیے سری نگر کا حلیہ تبدیل کردیا گیا ہے تاکہ جی 20 مندوبین کے سامنے بھارت اپنے اس دعوے کو تقویت دے سکے کہ 2019ء میں علاقے کی جزوی خود مختاری ختم کرنے سے یہاں امن قائم ہوا اور ترقی ہوئی۔ دوسری جانب، پاکستان نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ڈاکٹر فرنینڈ ڈی ویرنس کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں انھوں نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ سرینگر میں جی 20 اجلاس دراصل کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حمایت کے متراد ف ہے۔ ادھر، کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر نائب چیئرمین غلام احمد گلزار نے کہا ہے کہ جی 20 رکن ملکوں کی اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ خطے میں اجلاس میں شرکت نہتے کشمیر ی عوام پر بھارتی مظالم کی حمایت کے مترادف ہے۔ اجلاس کے خلاف 22 مئی کو مقبوضہ علاقے میں مکمل ہڑتال کی کال دی گئی ہے جبکہ کشمیری تارکین وطن برطانیہ اور امریکا سمیت عالمی دارالحکومتوں میں بھارت مخالف احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کریں گے۔ جی 20 ارکان اگر واقعی انسانی حقوق کے بارے میں ذرا سا بھی سنجیدہ موقف رکھتے ہیں تو انھیں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے مذکورہ اجلاس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن