آئی ٹی ایجادات اور نوجوان نسل 


نوائے دروں....لبنیٰ نورین
lubnanoreen512@gmail.com

موبائل اور انٹرنیٹ کی ایجاد کی وجہ سے گزشتہ صدی کو انقلابی صدی کہنا بےجا نہ ہوگا کیونکہ ان ایجادات نے دنیا بھر میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی بلکہ تعلیمی کاروباری اور تخلیقی میدانوں میں بھی ان ایجادات نے ہر چیز کی ہئیت ہی بدل کے رکھ دی ہے .... کسی بھی ایجاد کو اس کا استعمال ہی مثبت یا منفی بناتا ہے ۔ موبائل اور انٹر نیٹ نے جہاں رابطوں کو تیز تر کیا ہے ، فاصلوں کو سمیٹا ہے کام میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں اس کے منفی استعمال نے بہت سی مشکلات اور اخلاقی و نفسیاتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے ۔بات مزید خطرناک اس وقت ہو جاتی ہے جب ہم اپنی نوجوان نسل کو سکرین کے بے تحاشا استعمال سے اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے دیکھتے ہیں اور کچھ کر نہیں پاتے ۔المیہ تو یہ ہے کہ ?جکل کی مائیں یہ خطر ناک ہتھیار اپنے شیر خوار بچوں کے ہاتھوں میں خود تھما کر ان کو اس رنگ برنگی قیامت سے خود روشناس کروارہی ہیں اور جب بچے اس کے عادی ہوجاتے ہیں تو سر پکڑ کے بیٹھ کے جاتی ہیں اور پھر بچوں کو گیجیٹس کی اس دنیا سے باہر نکالنے کے طریقے ڈھونڈتی ہیں ۔۔دراصل چھوٹے بچے کا ذہن جس کے لیے ہر رنگ برنگی اور حرکت کرتی چیز کشش اور سکون کا باعث ہوتی ہے وہ جلد اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا عادی ہونا شروع ہوجاتا ہے۔والدین بھی بچے کو اس میں مصروف کرکے اپنے لئے آسانی ڈھونڈلیتے ہیں اور اپنے روزمرہ کام سہولت سے نپٹا لیتے ہیں لیکن ان کو نہیں معلوم کہ یہ رجحان ان کے بچے کے مستقبل کیلئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوگا ۔ 
ا?ج کل بچوں میں موبائل فون کے ساتھ ساتھ دیگر اسکرینز مثلاََکمپیوٹر ،لیپ ٹاپ ،ٹی وی اور ٹیبلٹ وغیرہ کا استعمال بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ ان گیجیٹس کے ذریعے بچے نئی نئی دنیائیں دریافت کررہے ہیں ۔ ۔کہیں گیمز کے ذریعے ہر وقت ایکشن اور مار دھاڑ سے بھرپور دنیا میں گھنٹوں وقت گزار رہے ہیں اور کہیں سوشل میڈیا کے مختلف ایپس پر اجنبیوں سے رابطے بڑھائے جارہے ہیں ۔ خاص طور پر کورونا وبا کے دوران اس میں بہت اضافہ دیکھنے میں ا?یا ہے ۔ جس سے ان بچوں کی روزمرہ زندگی عدم توازن کا شکار ہو چکی ہے بلکہ غصے اور چڑچڑےپن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ویڈیو گیمز کی وجہ سے ان کا مزاج جھگڑالو ہورہا ہے اور وہ تشدد پسند بنتے جارہے ہیں ۔ رات رات بھر جاگنے سے وہ کم خوابی کاشکار ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت خراب ہورہی ہے ۔ سستی اورتھکان بڑھ رہی ہے ۔جو انہیں نہ صرف تعلیم سے دور کرر ہی ہے ۔بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتوں کو بھی گھن کی طرح کھارہی ہے ۔ سکرین ک بڑھتے استعمال سے بچوں کی جسمانی ایکٹیویٹیز ختم ہو رہی ہیں ۔ ہمارے کھیل کے میدان اور تفریحی پارکس خالی نظر ا?تے ہیں۔ تعلیم سے بے رغبتی سے ان کے تعلیمی نتائج بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔ مزید برآں انٹرنیٹ سے فحش مواد تک رسائی نوجوان نسل کے لیے کسی زہر قاتل سے کم نہیں جس سے وہ اپنی طبعی عمر سے پہلے ہی جنسی ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسکرین سے بڑھتی ہو ئی دلچسپی انہیں اپنے رشتوں ، مذہب اور دین سے دور اور بیزار کر رہی ہے ۔ سکرین پر دکھایا جانے والا مواد رفتہ رفتہ ہماری مذہبی شناخت اور ساخت ختم کر رہا ہے ۔نوجوانوں میں لادینیت اور الحاد کا زہر پھیل رہا ہے ۔اوریہ تمام منفی رجحانات والدین اور اساتذہ کے لیے لمحہ فکریہ ہیں ۔
?ج کے تمام والدین کو بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔اپنے بچوں کے ہاتھوں میں گیجیٹس تھماتے ہوئے اگر وہ چیک اینڈ بیلینس نہیں رکھیں گے تو بچوں کے مستقبل کی تباہی کے ذمے دار وہ خود ہوں گے ۔ ہماری نوجوان نسل سارا وقت سکرین پر گزار دے گی تو والدین کو تربیت کا موقع نہیں ملے گا اور کل کو یہی بچے جب والدین بنیں گےتو اپنے بچوں کو تربیت کے نام پر دینے کیلئےان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا اور سوچیں تربیت کا یہ فقدان اسی طرح نسل در نسل منتقل ہوتا رہے گا تو پورا معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا ۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ ا?ج کے نوجوان بگڑ رہے ہیں بلکہ المیہ یہ ہےکہ کل کے بچوں کو بگڑے ہوے والدین ملیں گے۔ جن سے تربیت اور اچھی روایات کی پاسداری اور منتقلی کی امید رکھنا خام خیالی ہی ہے ۔
صاحبان پانی سر سے اونچا تو ہوگیا ہے لیکن ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اس خراب ہوتی صورتحال کو سنبھال سکتے ہیں ۔ ہنگامی اقدامات کرکے بچوں میں بڑھتے سکرین کے استعمال اور رجحانات پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تعلیم کھیل اور سکرین کے اوقات کار متعین کئے جانا ضروری ہے ۔ ہم بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ دیر دور نہیں رکھ سکتے البتہ ان کے قریب رہ کر ان کی نگرانی کرکے ان میں ڈسپلن پیدا کرسکتے ہیں ۔اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ گفتگو اور دیگر دلچسپ مشاغل میں مصروف رکھیں ۔ورزش ،کھیل کے میدان اور پارک لےجانے میں ان کو اپنے ساتھ شریک کریں ۔ان کو موبائل فون اور دیگر گیجٹس کے بے جا استعمال کے نقصانات سے ا?گاہ کرتے رہیں ۔گھریلو مصروفیات اور روٹین کے کاموں کے لیے ٹائم ٹیبل ترتیب دیں اور بچوں کو اپنے ساتھ دینی سرگرمیوں میں بھی شامل رکھیں تاکہ ان کے مذہبی عقائد مضبوط ہوں ۔
 پالتو جانوروں کی دیکھ بھال ، گھر کی آرائش و باغبانی ،ڈرائنگ اور ا?رٹ ورک میں ان کی دلچسپی بڑھائی جائے اور ایسے کورسز میں ان کا دخلہ کروایا جائے جہاں وہ اپنی دلچسپی اور شوق کے مطابق نئی نئی چیزیں سیکھ سکیں اور سکرین سے زیادہ سے زیادہ دور رہ سکیں ۔ ایک جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا اور اسکرین کے استعمال کو روزانہ 15 منٹ تک کم کرنے سے بھی صحت عامہ اور قوت مدافعت کو نمایاں طور پر بہتر بنایا جا سکتا ہے اور تنہائی اور ڈپریشن کی سطح کو کم کیا جا سکتا ہے۔ 
دوسری جانب موبائل فون کمپنیز کو بھی چاہیے کہ وہ موبائل ایپس پر اپنی کارکردگی کو مزید بہتر کریں اور مثبت مواد کی نشریات کو یقینی بنائیں تاکہ نوجوان نسل کے ذہنوں پر اچھے اثرات مرتب ہوں تاکہ یہ ان گیجیٹس کی ایجاد زحمت کی بجائے رحمت بن سکے اور ہمارے بچے ان سے بھر پور استفادہ کرسکیں ۔

ای پیپر دی نیشن